تحریر : شاہ اجمل فاروق ندوی
حلب جل رہا ہے، حلب جل رہا ہے، حلب جل رہا ہے۔ آج کل یہ جملہ خوب گردش میں ہے۔ جی ہاں! مقدس تاریخی سرزمین شام کا سب سے بڑا شہر حلب (Aleppo) جل رہا ہے۔ صرف حلب نہیں، پورا شام تقریباً چار سال سے بدترین مظالم کی آگ میں جل رہا ہے۔ معصوم بچے ذبح کیے جارہے ہیں۔ ہزاروں بیوائیں سڑکوں پر عدت گزار رہی ہیں۔ سیکڑوں خوش حال ہنستے کھیلتے جوان اپنے گھر بار کو برباد ہوتا دیکھ کر پاگل یا نیم پاگل ہوچکے ہیں۔ ننھے ننھے معصوم بچے اپنے ماں باپ کی قبروں کے پاس زندگی گزار رہے ہیں۔ کیوں کہ انھوں آخری مرتبہ انہیں یہیں جاتے دیکھا تھا۔ وہ بے چارے اس آس میں ہیں کہ ایک دن اُن کے ماں باپ نکلیں گے۔ وہ بھوکے پیاسے، گندے سندے وہیں پڑے رہتے ہیں۔ پریشان ہوتے ہیں تو ماں باپ کی قبروں پر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر انہیں چلاّ چلّا کر بلاتے ہیں اور تھک ہار کر روتے روتے وہیں سو جاتے ہیں۔
ہزاروں لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو کر ہڈیوں کا پنجر بن گئے ہیںاور مرنے کی آرزو کر رہے ہیں۔ اُن کے پاس پینے کے لیے پیشاب تک نہیںکہ معدے کو تر کرسکیں۔اب تک سو، دو سو نہیں تقریباً چار لاکھ افراد مارے جاچکے ہیں۔ کیا کیا گنوایا جائے؟ اور کہاں تک سنایا جائے؟ جس کے کلیجے میں طاقت ہو، وہ نیٹ پر ان مظالم کی تصویریں دیکھ لے۔ کم زور دل والے مرد اور عام خواتین تو ان تصاویر کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔ ہائے ہائے ! جن مناظر کی ہم تصویریں بھی نہیں دیکھ سکتے، شام والے اُن مناظر سے گزر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں۔ بے حس اور مردہ لوگ۔ ہم شام کے حالات پڑھتے پڑھتے اوب چکے ہیں۔ وہاں کی صورت حال اتنی پیچیدہ بنادی گئی ہے کہ ہم اس کے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہتے۔
ہمارے مسلم ممالک کے حکم راں بے دین، بے غیرت اور بے ضمیر ہیں۔ وہ انسانی یا دینی رشتے کی بنا پر کوئی مضبوط قدم اٹھانے سے معذور ہیں۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں، دنیاوی آقاؤں کا ڈر ہے۔ اس لیے جانے دیجیے بزدل اور دنیا پرست حکم رانوں کے اس ٹولے کو۔ آئیے ! اپنے ملک کی دینی وملّی جماعتوں اور تنظیموں کی بات کریں۔ کہاں ہیں بات بے بات رام لیلا میدان اور بڑے بڑے اسٹیڈیم بھرنے والے؟ کہاں ہیں دن رات حکومت الٰہیہ کے قیام اور مکمل نظام حیات کی بات کرنے والے؟ کہاں ہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ کے لیے قریہ قریہ گھومنے والے؟ کہاں ہیں چیخ چیخ کر کتاب و سنت ، کتاب و سنت کے نعرے لگانے والے؟ کہاں ہیں صبح و شام عشق رسول کی مالا جپنے والے؟ آخر کہاں مر گئے میدانِ کربلا سے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس لے کر دنیا کو عشقِ حسین کا پاٹھ پڑھانے والے؟۔
کیا شام میں چار لاکھ مسلمانوں کا خون اس لائق نہیں کہ اس کے لیے جلسے جلوس کیے جائیں؟ فرعونیت کے خلاف احتجاج کیا جائے؟ سڑکوں پر نکل آیا جائے؟ سفارتی یا سرکاری سطح کے احتجاج کے لیے حکومت پر دباؤ بنایا جائے؟ کیا نواسۂ رسول حضرت حسین ، امام ابن تیمیہ، مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی نے ہمیں پسپائی، بزدلی اور بے غیرتی کی تعلیم دی ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں، تو ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے والے اس شجر ممنوعہ سے کیوں لپٹے ہوئے ہیں؟ اپنے اپنے دائروں اور پالیسیوں کا خیال رکھتے ہوئے، جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ کیوں نہیں کرتے؟ وہ کون سے اصول اور پالیسیاں ہیں، جن میں چار لاکھ مسلمانوں کے بے دریغ خون کے باوجود ذرّہ برابر تبدیلی یا اونچ نیچ نہیں کی جاسکتی؟ اللہ تعالیٰ نے فتنے کا سرکچلنے کے لیے حرم میں بھی قتال اجازت دی ہے، تو ہمارے اصولوں میں یہ لچک کیوں پیدا نہیں ہوسکتی؟۔
جانے دیجیے! اِن فرقوں، مسلکوں، جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین کو۔ اُن کا کام ہے، وہ جانیں۔ ہم تو اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے کون سا تیر مار لیا؟ کیا سوشل میڈیا پر عربی، انگلش، اردو یا کسی اور زبان میں لفاظی کرنا کافی ہے؟ مان لیجیے! کافی ہے۔ تو ہم میں سے کتنوں نے اپنی چونچ کو حرکت دینے کی زحمت گوارا کی؟ کیا ہم ذاتی طور پر مسلسل شام کے حالات سے آگاہی حاصل کررہے ہیں؟ کیا ہم نے اس مسئلے پر کسی بھی سطح کی بے داری لانے کی کوشش کی؟ ہم میں سے کتنوں نے اپنی مساجد میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرایا؟ کتنے لوگوں نے جمعہ کی تقریروں میں اپنے شامی بھائی بہنوں کے حالات پر گفتگو کی یا اپنے ائمہ و خطباء سے اس کی گزارش کی؟۔
سب چھوڑ دیجیے! آئیے بس اتنا جائزہ لیں کہ ہم میں سے کتنوں نے شامی مسلمانوں کے لیے بارگاہِ رب العزت میں دعا کی؟ دعا تو سب سے آسان اور سب سے کارگر ہتھیار ہے۔ اس کے استعمال سے کس نے روکا ہے؟ اللہ کے رسول ۖ نے امت کے معاملات کی فکر نہ کرنے والے کو اپنے سے الگ بتایا تھا۔ کیا ہم سب اس زمرے میں نہیں آتے؟ اگر کوئی ہم پر سخت کلامی کا الزام لگاتا ہے، تو ہم کہتے ہیں ہاں! ہم سخت کلامی کے مجرم ہیں۔ یہ باتیں واقعی سخت ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک طرف چار لاکھ مسلمانوں کی کٹی پٹی لاشوں کو رکھیں گے اور دوسری طرف اِن باتوں کو ، تو ہرگز یہ باتیں سخت معلوم نہ ہوں گی۔ جی تو چاہتا ہے کہ شام کے شہداء کو پکا ر پکار کر کہا جائے : ” اے شہیدو! تم مر کر بھی زندہ ہو اور ہم زندہ ہوکر بھی مردہ ہیں۔”
تحریر : شاہ اجمل فاروق ندوی