تحریر: حنظلہ عمادجدوجہد
یاس بھری نظروں سے ساحلوں کو تکتے ہیں
زندگی کی رمق کو جانچتے پرکھتے ہیں
جانے کب کیسے کیسے غرق آب ہونا ہے
شام میں ایک عرصہ دراز سے خانہ جنگی جاری ہے۔ یوں تو بشارالاسد کے باپ حافظ الاسد کے خلاف بھی جدوجہد جاری تھی لیکن 2011ء سے باقاعدہ یہاں جنگ کی کیفیت ہے۔ بہت سے متحارب گروہ جانے کس کس کے اشاروں پر اپنے تئیں اسلام نافذ کرنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ بشارالاسد بلاشبہ ایک ظالم حکمران ہے۔ جوملک کے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتاہے اور ملک کی اکثریت پرنہ صرف جابرانہ حکومت کررہاہے بلکہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو دبانے میں کسی حدود کی پرواہ نہیں کررہاہے۔ چنانچہ بہت سی جائز آوازیں بھی اسی باعث نہ صرف تشدد کی راہ اختیار کرچکی ہیں بلکہ پراکسی وارز کاایک طویل سلسلہ اس ضمن میں شروع ہوچکاہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس جنگ میں فتح کس کی ہو گی لیکن ایک بات یقینی ہے کہ شام کے عوام اس جنگ میں بری طرح ہارچکے ہیں۔وہ نہ صرف گھربار سے محروم ہیں بلکہ بنیادی انسانی ضروریات جیسے خوراک وغیرہ کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔یوں اس جنگ میں حریف نہ ہونے کے باوجود اس جنگ کی سب سے بڑی قیمت شام کے مظلوم عوام ادا کررہے ہیں۔ کچھ شامی مہاجرین کی داستان بطورِ مثال ذیل میں درج ہے کہ اس سے ان کی کیفیت سمجھنے میں مدد ملے گی۔
برفباری اور شدید بارشوں کاموسم ہے۔ کپڑے کے بوسیدہ خیمے کے باہربیٹھی ان تین بچیوں میں سب سے بڑی عالیہ کی عمر6سال ہے۔اس کاکہناہے کہ میں اپنی دونوں بہنوں کا خیال رکھتی ہوں کیونکہ میرے باپ نے مجھے ایساکہاتھا۔باپ شاید جنگ میں کہیں مارا گیا یاکہاں ہے معلوم نہیں ہے۔ ماں البتہ ان کے ساتھ ہے۔ نحیف و فزار خاتون کہ کمزوری کے باعث جوچلنے پھرنے سے بھی عاجز ہے۔ ان بچیوں کے پاس کھیلنے کو کھلونے تودور کی بات ، پہننے کو پورے کپڑے ،رات کو سونے کے لیے لحاف تک نہیں ہیں۔ اس لیے رات کی بجائے دن میں دھوپ میں ہی آرام ہوتاہے۔لیکن اگر دھوپ بھی نہ نکلے تو پھرمحض دعائیں کرنے اور سردی سے ٹھٹھرتے ،کانپتے وقت گزرتا ہے۔عالیہ جیسے ہزاروں بچے اس کیمپ میں ہیں اور اسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
لبنان کے کیمپ میں مقیم محمداحمد اگرچہ گھربار سے محروم ہے لیکن اس کے باوجود وہ دوستوں کے ہمراہ خواب بھی دیکھتاہے اور سہانے دنوں کی امید سجائے بیٹھاہے۔ اس کابڑا بھائی گلیوں میں ٹشو پیپر ربیچتا ہے اور لڑکے اکثر اس سے ٹشو چھین لیتے ہیں ۔بلکہ بعض اوقات پیسے بھی چھین لیتے ہیں۔احمد کا کہنا ہے کہ محنت مزدوری توہم کر لیں گے لیکن لوگ ہمیں دیکھ کر جملے کستے ہیں اور بعض اوقات تشدد بھی کرتے ہیں۔
احمد نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک خط پوری دنیاکے نام لکھاہے کہ جس میں اس نے اپیل کی ہے کہ ان پرمظالم بندکیے جائیں اوروہ چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں برا سمجھناچھوڑدیں۔ مضایانامی بستی کے لوگ چالیس سے زائد دن سے کھانے پینے کی اشیاء سے محروم ہیں۔ان کے حالات دیکھ کرافریقہ کی بھوک بھی افسانہ معلوم ہوتی ہے۔ اپنے ہی بچوں کو بھون کرکھانے کی کچھ کربناک مثالیں بھی وجود میں آچکی ہیں۔مضایا نامی یہ بستی شام کے علاقے میں ہے لیکن ان کی اس حالت کی وجہ بھی جنگ ہے کہ جس کے باعث کسی قسم کاراشن ان تک پہنچ نہیں پارہاہے۔
شامی مہاجرین کی اگرکل تعداد کو دیکھاجائے تو وہ اس وقت تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس میں80لاکھ لوگ وہ ہیں کہ جو شام ہی میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔یہ فسادات کے باعث اپنے علاقوں کو چھوڑ کر نسبتاً محفوظ علاقوں کارخ کررہے ہیں۔ لیکن بیرونی قوتوں جیسے روس اورامریکہ کی جنگ میں براہ راست شمولیت نے ان کے لیے مشکلات کو بڑھادیاہے کیونکہ اس سے قبل خانہ جنگی کے علاقے محدود تھے اور متحارب گروہ صرف زمینی لڑائی لڑتے تھے۔ چنانچہ محفوظ علاقے موجود تھے لیکن روس وغیرہ کی بمباری کے نتیجے میں سارا شام ہی غیر محفوظ ہوگیاہے۔ فضا سے برسنے والے گولے اس تمیز کے بغیر گرتے ہیں کہ اس میں صرف جنگجو مریں گے یا عام انسان بھی ہلاک ہوں گے۔ چنانچہ ان بیرونی طاقتوں کی براہ راست شمولیت کے نتیجے میں جنگ مزید ہلاکت خیز ہوگئی ہے۔ اپنے تئیں یہ بیرونی قوتیں اس مسئلے کو سلجھانا چاہتی ہیں اور دنیا کو بھی یہی باور کروارہی ہیں لیکن درحقیقت ان قوتوں کی مشق ستم کا نشانہ مظلوم شامی عوام بن رہے ہیں اور ان کی مشکلات اور ہلاکتوں میں روز بروز اضافہ ہورہاہے ۔چنانچہ تادم تحریر 4لاکھ سے زائدلوگ مارے جاچکے ہیں جبکہ 15
لاکھ شدید زخمی یامستقل معذور ہوچکے ہیں۔
شام میں ہی اپنی جگہ بدلنے والے بھی مستقل ہجرت پرمجبور ہیں کہ وہ خانہ بدوشوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ایک علاقے کومحفوظ گمان کرتے ہوئے وہاں ٹھہرنے والوں کو کچھ ہی عرصے کے بعد اس علاقے کو چھوڑ کرنئے علاقے کی طرف ہجرت کرناپڑتی ہے جبکہ اس دوران زیادہ ترسفرپیدل ہی طے ہوتاہے۔ بمباری ، شدید سردموسم اور دیگرمصائب کاسامناکرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قافلے میں شامل بچے اور بوڑھے ہیں کہ یہ افراد نہ صرف جلدی تھک جاتے ہیں بلکہ انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی آن گھیرتی ہیں جبکہ قافلے میں شامل نوجوان بھی ان لگاتار مصائب کا سامنا کرتے ہوئے بالآخر ذمے جاتے ہیں۔
شامی مہاجرین میں وہ لوگ جوکچھ زادِ راہ اور دیگر وسائل رکھتے ہیں ۔وہ شام سے باہر نہیں جاتے۔ پناہ تلاش کرتے ہیں۔چنانچہ نتیجتاً 60لاکھ کے قریب شامی مہاجرین دنیاکے مختلف ممالک میں مہاجروں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان مہاجرین میں سے سعودیہ،کویت اور متحدہ عرب امارات میں آنے والے مہاجروں کی حالت نسبتاً سب سے بہترہے کہ ان ممالک میں ان مہاجرین کومستقل شہری کی حیثیت دی گئی ہے اور انہیں مہاجرکیمپوں میں نہیں بسایا گیا بلکہ زیادہ تریہ آبادیوں میں ہی رچ بس گئے ہیں۔ چنانچہ اس کے باعث بہت سے میڈیا پرسنز اور ایک ”خاص” فکر رکھنے والے احباب کو ان ممالک میں شامی مہاجرین نظر ہی نہیں آتے تھے۔چنانچہ وہ اس بات کا دھڑلے سے پرچار کرتے تھے کہ عرب ممالک شامی مہاجرین کی مدد نہیں کر رہے جبکہ حقیقت یوں ہے کہ محض 5لاکھ سے زائد مہاجر مقیم ہیں لیکن وہ مہاجر کیمپوں میں نہیں بلکہ باقاعدہ گھروں میں رہ رہے ہیں۔اسی طرح اس مسئلے میں دیگر ہمسایہ ممالک میں شامی مہاجرین آبادہیں۔جن میں ترکی،لبنان، عمان،کویت،عراق اور یورپ کے ممالک میں جرمنی قابل ذکر ہیں۔
چندممالک کے علاوہ زیادہ ترممالک میں یہ مہاجرین بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بلکہ حقارت آمیز رویے بھی سہنے پر مجبورہیں ۔ترکی اس وقت سب سے بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔یہاں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد 26 لاکھ کے قریب ہے۔ عمان میں 14 لاکھ، لبنان میں 15 لاکھ، کویت میں 2لاکھ اور اسی طرح دیگر ممالک میں یہ شامی مہاجرین بدترین زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔
یورپ جوکہ اس وقت ترقی یافتہ اور انسانیت کے لیے بہترین حل کادعویٰ رکھتاہے۔اس نے بھی انسانیت کے درد کو محسوس کرنے کادعویٰ کیاہے۔ چنانچہ ہمارے بہت سے میڈیا پرسنز اورافراد اسی تکرار میں مصروف ہیں۔ شامی مہاجرین سارے کے سارے یورپ پہنچ رہے ہیں جبکہ حقیقت یوں ہے کہ محض 10فیصد مہاجرین نے یورپ کا رخ کیاہے۔ ان میں بھی سب سے زیادہ جرمنی میں ہیں کہ یہاں دولاکھ کے قریب مہاجرین ہیں لیکن یورپ میں پہنچنے والے ان مہاجرین کو شدید ترین نفرت اور حقارت کاسامنا کرناپڑرہاہے۔
میڈیاپریورپ میں مہاجرین کاشور وغوغااس قدر ہے کہ یوں محسوس ہوتاہے کہ تمام مہاجرین کو صرف یورپ ہی پناہ دے رہاہے جبکہ صورتحال برعکس ہے کہ یورپ کے تمام رہنما اس وقت اس قلیل تعداد کے مہاجرین سے بھی پیچھا چھڑوانے کی ترکیبیں بنارہے ہیں۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ مشرقی جرمنی میں ایک علاقے میں مہاجرین کے لیے ایک عمارت بنائی جارہی تھی کہ اس کو آگ لگ گئی۔مقامی حکومت کے مطابق یہ عمارت پہلے ہسپتال تھی لیکن اب اس کو مہاجرین کے لیے تیار کیاجارہاتھا۔انہیں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اس عمارت کو آگ لگائی گئی تھی۔ کیونکہ آگ بجھانے میں مقامی افراد نہ صرف رکاوٹ بن رہے تھے بلکہ آگ کو دیکھ کر خوش بھی ہورہے تھے اور شامی مہاجرین پر نفرت آمیز جملے بھی کسے جارہے تھے۔ شامی مہاجرین پر حملے،ان کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ہتک آمیز رویہ اس وقت یورپی ممالک میں مقیم افراد کا وطیرہ بن چکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی سے اس وقت واپس جا چکی ہے۔ بہت سے یورپی ممالک نے تواپنی سرحدیں بھی بند کر دی ہیں جبکہ مہاجرین پرسرحدوں پرہونے والے حملے اور ان کے ساتھ ہونے والا بہیمانہ سلوک اس وقت سوشل میڈیا پربھی دیکھاجاسکتاہے۔
الغرض گھربارسے محروم شامی مہاجرین اس وقت بدترین حالات کاشکارہیں ۔گویاماں سے محروم بچے،ان کے حالات سنوارنے کے لیے بیرونی طاقتوں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو کچھ وہ کررہی ہیں،اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ شام کامسئلہ اس کے اندر ہی حل ہوسکتاہے۔ بس بیرونی طاقتیں اس کو ہی پراکسی وار کا حصہ نہ بنائیں۔عالمی طاقتوں سے یہی شامی مہاجرین کی التجاہے کہ اپنے مفادات کی جنگ ہماری سرزمین پر نہ لڑیں کہ ہماری اندرونی لڑائی تو شایدہم سلجھالیں لیکن اس بیرونی مداخلت نے ہمارے اپنے غم کی سیاہ رات کوطویل سے طویل ترکردیاہے اورمصائب و آلام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو اس وقت ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس وقت شامی مہاجرین کابہترین طریقہ انہیں انہی کے ملک میں واپس بساناہے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب شام میں امن ہوگااور عالمی طاقتیں وہاں جنگ کو ہوا نہ دیں گی۔
تحریر: حنظلہ عماد