تحریر : ایم ایم علی
اگر آج ہم دنیا پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج تک جس قوم نے بھی ترقی کی ہے وہ تعلیم ہی کی بدولت کی ہے۔ لفظ تعلیم عربی زبان کے لفظ، علم، سے مشتق ہے اس کے معنی جاننا،آگاہی حاصل کرنا اور شعور حاصل کرنا ہے۔تعلیم کا مقصد نئی نسل تک معاشرتی اقدار ،ادب اور ثقافت کی منتقلی ہے اللہ تعالی نے قران حکیم میں بھی علم کی بہت اہمیت بیان کی ہے ،چنانچہ وحی کی ابتدا اقرا بسم ربک الذی خلق سے ہوئی ۔انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ بھی تعلیم ہی کی بدولت ملا ہے۔بقول شاعر
پایا علم سے ہی پایا بشر نے
فرشتوں نے بھی وہ پایہ نہ پایا۔
مسلمانوں کی تاریخ شاہدہے کہ وہ کبھی بھی جدید علوم سے پیچھے نہیں رہے ،موجودہ زمانے میں جتنے بھی جدید علوم ہیں مسلمان ان کے بانی رہے ہیں ،آج بھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ مغرب نے آج جتنی بھی ترقی کی ہے وہ سب مسلمانوں کے علوم ہی کی مر ہون منت ہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے حصول کو لے کر قوم دو گرہوںمیں تقسیم نظر آتی ہے ،ایک وہ گروہ ہے جس کے نزدیک اسلام میں تعلیم حاصل کرنے سے مراد صر ف اسلامی تعلیمات ہیں جبکہ دوسرا گروہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم کو بھی ضروری گر دانتا ہے ۔دوسرے گروہ کی بات میں وزن اس لئے بھی لگتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام کی ترقی میں دنیوی تعلیم بھی کارفرما تھی،لیکن اسلامی نظام تعلیم انسان کو ایک مکمل ضابطہ اخلاق مہیا کر تا ہے ۔پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت ہے اس نظریاتی ریاست میں اسلامی نظام حیات کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ ایک طبعی تقاضا تھا لیکن افسوس ایسا کرنے سے مسلسل انحراف کیا گیا۔
اسی وجہ سے نئی نسل بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک طبقے نے سکولوں کالجوں اور یونیوسٹیوں کی رہ لی اور دوسرے طبقے نے دینی مدرسوں کا رخ کر لیا ۔اسطرح یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے ۔اور آپس میں باہمی ا ختلافات بڑھتے چلے گئے چاہئیے تو یہ تھا کہ انگریز کے نظام تعلیم کی پیدا کر دہ تفریق کو ختم کر کے اسلامی تعلیم کو رائج کر دیا جاتا مگر افسوس ایسا ممکن نہیں ہو سکا ،یہی وجہ تھی کہ دینی مدارس کے طلباء صرف مدرسوں اور مسجدوں تک محدود ہو کر رہ گئے ۔حالانکہ کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوتے ہیں اور حلال و حرام میں بخوبی تمیز کر سکتے ہیں ۔لیکن دوسرے شعبوں سائنس ،زارعت ،صنعت و تجارت جیسی تعلیم سے ناواقف ہوتے ہیں اسی وجہ سے یہ طلباء حکومت یا حکومتی مشینری کا حصہ نہیں بن سکتے لیکن اس کے بر عکس دوسرے طلباء جو انگلش میڈیم سکول اور ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد حکومتی مشینری کا حصہ بن جاتے ہیں ، چونکہ ہمارے ہاں انگلش میڈیم سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات سے آ گاہی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لئے ان میں سے زیادہ تر لوگ حلا ل و حرام میں تمیز کرنے کی بجائے اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کر دار ادا کرنے کی بجائے بد دیانتی اور کرپشن کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے ایک درد ناک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم دینے کی بجائے تعلیم کو بیچا جاتا ہے ،آپ ملک کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو پرائیوئٹ سکولوں کی بھر مار نظر آے گی ان ادروں میں جو معلم بچوں کو تعلیم دیتے ہیں وہ خود انتہائی کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔انہوں نے سکولوں کو صرف کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے ،ان میں اکثر گورنمنٹ سے رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتے ہیں ۔میں تمام پر ائیوٹ سکولوں کی بات نہیں کر رہا کیونکہ پرائیوئٹ سکولوں میں بھی بہت سے ادارے ایسے ہیں جو بچوں کو اعلی تعلیم دے رہے ہیں ۔لیکن اکثریت سکول بچوں کو اچھا مستقبل دینے کی بجائے بچوں کا مستقبل خراب کرنے کے درپے نظر آتے ہیں ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کے ہمارے ملک میں سر کاری سکولوں کی تعداد بہت کم ہے ۔اگر دیہات کی بات کی جائے تو وہاں پر سرکاری سکولوں کا یہ عالم ہے کہ بچوں کو کئی کئی کلو میٹر کا سفر طے کر کے حصول تعلیم کیلئے جانا پڑتا ہے ۔ان سکولوں میں اساتذہ بھی کم ہی آتے ہیں ،اگر سرکاری سکولوں کو مکمل سہولتوں سے آراستہ کر دیا جائے تو وہاں سے پڑھنے والے بچے تعلیم کے زیور سے بہتر طور پرآراستہ ہو سکتے ہیں۔
گلی محلوں میں نر سر یوں کی طرح پیدا ہونے والوں پرائیوئٹ سکولوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چائیے اور اسے کاروبار کی شکل دینے والوں کیلئے مکمل اصول و ضوابط مرتب کئے جانے چاہییں تاکہ والدین ان کے ہاتھوں سے لٹنے کی بجائے سہولیات اور تربیت یافتہ اساتذہ سے مزین سرکاری سکولوں کا رخ کریں۔ اس وقت ہمارے ملک میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں گی ۔اس سے نہ صرف حکومت کی نیک نامی ہو گی بلکہ تعلیمی میدان میں عوامی سطح پر حکومتی امیج میں بھی اضافہ ہو گا اور سب سے بڑھ کر قوم کے روشن مستقبل کی آبیاری ہوگی ۔اور اس سے پاکستان میں آنے والی نسلوں کیلئے تعلیم کا حصول یقینا آسان اور بہتر ہو جائے گا۔
تحریر : ایم ایم علی