دہشتگردی کی حالیہ لہر نے پورے ملک کو ایک بار پھر خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں حسب معمول مذمتی بیان داغنے سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ البتہ اس عفریت سے چھٹکارا پانے کے لیے پاک فوج نے پورے ملک میں ’’آپریشن ردالفساد‘‘ شروع کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ آپریشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔
ان خدشات کا سبب یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے یہاں کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے ایسی کوئی مربوط حکمت عملی تیار نہیں ہو سکی ہے، جس پر ریاست کے مختلف محکمے اور شعبہ جات پیشہ ورانہ روابط کے ساتھ عمل پیرا ہوئے ہوں۔ اگر ایک ادارہ یا محکمہ کوئی پالیسی مرتب کرتا ہے، تو دیگر ادارے اور خود وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام تر ذمے داری اس ادارے پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔ یہ طرز عمل دہشتگردی جیسی عفریت سے نمٹنے اور اسے ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک دنیا کے کئی ممالک مختلف نوعیت کی دہشتگردی اور شورش کا شکار ہوئے ہیں۔ ان ممالک نے اس نوعیت کی عفریت پر قابو پانے کے لیے ریاست کے تمام متعلقہ اداروں اور شعبہ جات کو مربوط انداز میں متحرک کیا، جب کہ حکومتوں نے اس دوران اپنا سیاسی کردار ادا کیا۔ اس کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اول آئی آر اے (آئرش ری پبلک آرمی) کے خلاف برطانیہ کی حکمت عملیاں۔ دوئم، تامل ٹائیگرز کے خلاف سری لنکن حکومت کی کارروائیاں۔ یہ دنوں مثالیں دہشتگردی اور شدت پسندانہ رجحانات پر قابو پانے کے لیے عمدہ نظیر ہیں۔
یہ پہلو بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ فوج سمیت سیکیورٹی ادارے جو حکمت عملیاں تیار کرتے ہیں، وہ تزویراتی نقطہ نظر سے تشکیل دی جاتی ہیں۔ یہ سیاسی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ان تزویراتی حکمت عملیوں کو وسیع البنیاد ریاستی پالیسیوں کا حصہ بنائیں اور ان کے ہر پہلو پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
اگر گزشتہ دس برسوں کے دوران کیے گئے اقدامات پر نظر ڈالیں تو ملک کے مختلف حصوں میں درجن بھر کے قریب آپریشن کیے گئے۔ 2007-9ء کے دوران سوات میں آپریشن راہ حق اول، دوئم اور سوئم۔ سوات ہی میں 20088ء میں آپریشن راہ راست شروع کیا گیا۔ 2008ء میں باڑا (لنڈی کوتل کے اطراف) میں آپریشن صراطِ مستقیم اور شیر دل کیا گیا۔ 2009ء میں محدود پیمانے پر وزیرستان میں آپریشن راہ نجات کیا گیا۔
دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا، جو دسمبر 2016ء تک جاری رہا۔ اسی دوران خیبر اول، دوئم اور سوئم خیبر ایجنسی میں کیے گئے۔ اس کے علاوہ چھوٹے موٹے آپریشنز مختلف علاقوں میں جاری رہے۔ فوج نے متعلقہ علاقوں کو درج بالا آپریشنوں کے ذریعے بظاہر دہشتگردوں سے پاک کر دیا مگر یہ عمل اس وقت تک پائیدار نہیں ہو سکتا، جب تک کہ سیاسی اور انتظامی اقدامات نہ کیے جائیں۔
یہ طے ہے کہ پائیدار مطلوبہ نتائج کا حصول محض فوجی آپریشن پر تکیہ کرنے سے ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے بعد از آپریشن حکومتوں کے سیاسی و انتظامی اقدامات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ اقدامات نہیں ہو رہے۔ کیونکہ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان آپریشنوں کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھ گئی ہیں۔ وہ بعد از آپریشن اقدامات سے بے نیاز اپنی سیاسی لڑائیوں میں مشغول ہیں۔ جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ شدت پسند عناصر کچھ عرصہ بعد ایک بار پھر مجتمع ہو سکتے ہیں، جو آپریشن کے ثمرات کو ملیامیٹ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ایک ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ خود اور اپنے ماتحت تمام اداروں کو آئین اور قانون کے تابع رکھیں۔ پولیس سمیت سیکیورٹی اداروں کو ماورائے آئین وقانون اقدامات سے روکنے کے لیے حکومتوں کو ہر آپریشن کی مانیٹرنگ کرنا چاہیے۔ وہ سیکیورٹی اداروں کو پابند کرے کہ وہ گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کریں۔ پولیس سمیت کسی سیکیورٹی ادارے کو مجرمان کے خلاف اس وقت تک آتشیں اسلحہ استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہوتا جب تک کہ مجرمان ان پر حملہ آوار نہ ہوں۔
حال ہی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جیسے ہی آپریشن ردالفساد شروع ہوا، پولیس ایک دم فعال ہو گئی اور اس نے دھڑا دھڑ دہشتگرد مارنا شروع کر دیے، جس کی تازہ ترین مثال کراچی کے ضلع ملیر میں پولیس مقابلے میں درجنوں دہشتگردوں کے مارے جانے کی خبریں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اچانک پولیس مقابلے کیسے شروع ہو گئے اور جو لوگ مارے گئے ہیں، ان کے بارے میں یہ تفتیش کون کرے گا کہ وہ واقعتاً دہشتگرد تھے یا پولیس گردی کا شکار ہونے والے افراد تھے۔ سندھ کی صوبائی حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان پولیس مقابلوں کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرائے۔
اب ذرا دوسری طرف آئیے۔ ڈھائی ہزار برس قبل یونانی فلسفی سقراط نے ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے چند نکات پیش کیے تھے، جنھیں اس کے شاگرد افلاطون نے اپنی کتاب میں قلمبند کیا ہے۔ سقراط کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت کا جائز ہونا قانون کے دائرے میں عمل پیرا ہونے سے مشروط ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ انصاف قوانین کی جڑ ہے۔ اگر کوئی قانون انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تو وہ ناکارہ ہے۔ سوئم، اگر کوئی بھی معاملہ انصاف کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا تو اسے قانونی نہیں کہا جا سکتا، یعنی
If anything is not approved by justice it cannot be legal۔
سوال یہ ہے کہ انتظامی اقدامات ناکامی سے دوچار کیوں ہوتے ہیں؟ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ملکی قوانین اس قدر فرسودہ ہو چکے ہیں کہ ان کے ذریعے جدید تقاضوں کے مطابق انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ دوئم، عدالتی نظام اور ڈھانچہ بھی فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔
گزشتہ دنوں سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک اجلاس میں برملا یہ اعتراف کیا کہ 1861ء کے پولیس آرڈر کے ذریعے 21 ویں صدی کے معلات چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نوآبادیاتی دور میں پولیس کو ایک فورس کے طور پر عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ آج پولیس ایک سروس ہے، جس کا مقصد عوام کی خدمت ہے۔
یہی بات ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ کہی جا چکی ہے کہ پولیس کے نظام میں جدید خطوط پر اصلاحات وقت کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کو غیر سیاسی کیا جانا بھی اس کی کارگردی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ لیکن سب سے اہم اقدام پولیس کو ضلعی انتظامیہ کے ماتحت کیا جانا ہے، یعنی اس کی منتقلی ہے۔ اس کے بغیر اس کلیدی سیکیورٹی ایجنسی سے مستحکم اقدامات کی توقع عبث ہے۔
ساتھ ہی پارلیمان کو عدالتی نظام کو جدید خطور پر استوار کرنے کے علاوہ کرمنل جسٹس کے طریقہ کار اور قانون شہادت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ قانون سازی کرنا ہو گی۔ 2002ء کے پولیس آرڈر میں کچھ خامیاں اور نقائص ضرور تھے، لیکن یہ پولیس نظام میں بہتری کے لیے ایک قدم آگے تھا۔ مگر ہمارے حکمران نوآبادیاتی ذہنیت رکھنے کی وجہ سے فرسودہ کے عادی ہیں۔ کیونکہ انھیں عوام کی خدمت سے کوئی سروکار نہیں ہے، بلکہ وہ انھیں اپنی رعیت بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے پولیس کو عوامی خدمت کی سروس بنانے کے بجائے وہ اسے بطور عوام کو کنٹرول کرنے کی ایک فورس ہی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے نظام میں جب پورا انتظامی ڈھانچہ اور قوانین فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہے ہوں، بہتری کی خواہش محض ایک خواب ہی لگتی ہے۔