کیا آپ نے کبھی ایسی ٹیم دیکھی ہے جو دنیا کی مضبوط سے مضبوط ٹیم کو ہرا بھی سکتی ہے اور کمزور سے کمزور ٹیم سے ہار بھی سکتی ہے۔
وثوق کے ساتھ کسی ٹیم کے بارے میںتو نہیں کہہ سکتا تاہم یہ بات ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہ خوبی پاکستان کرکٹ ٹیم میں ضرور موجودہے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے جاری دورہ انگلینڈ کو ہی دیکھ لیں۔
مصباح الحق، یونس خان جیسے منجھے اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی بجائے زیادہ ترنوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل گرین کیپس نے لارڈز ٹیسٹ میں انگلینڈ ٹیم کے ساتھ جو کچھ کیا، اس پر کرکٹ کے پنڈت بھی حیران رہ گئے، اور تو اور انگلش میڈیا بھی چیخ اٹھا اور اس نے اپنے کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن اگلے ہی ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کے غبارے سے ایسی ہوا نکلی کہ تیسرے ہی دن میچ کا فیصلہ ہو گیا۔
پہلے ٹیسٹ میں غیر معمولی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی،سینئر اور جونیئر سب ناکام ہوئے، بابر اعظم کے ان فٹ ہونے کے بعد عثمان صلاح الدین کو طویل عرصہ کے بعد ٹیسٹ ڈیبیو کرنے کا موقع میسر آیا تاہم وہ بھی اپنے ابتدائی ٹیسٹ کو یادگار نہ بنا سکے۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق بھی صلاحیتوں کامظاہرہ نہ کر سکے،ٹاپ آرڈر کے پانچ بیٹسمین ایسے شاٹ کھیلنے کی کوشش میں آؤٹ ہوئے جو ٹیسٹ بیٹسمین 300 کی لیڈ حاصل کر لینے کے بعد کھیلا کرتے ہیں۔اظہر علی کی فارم کیا بگڑی کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کا فرق ہی بھول بیٹھے۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ سرفراز احمد نازک مواقعوں پر میچ کا پانسہ پلٹ دینے والی اننگز کھیلتے ہوئے سینچری بناجاتے تھے مگر جب سے کپتانی کا بوجھ پڑا ہے، ٹیسٹ کو بھی ٹی ٹوئنٹی ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہماری ٹیم کے ساتھ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جونیئر کھلاڑی کسی ایک میچ میں اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ خود کو سپر سٹار سمجھنے لگتا ہے، اپنا موازنہ ماضی کے کسی عظیم کھلاڑی کے ساتھ کرنا شروع کر دیتا ہے، عجیب وغریب ہیئر سٹائل بنا تا اور، فیس بک، وٹس ایپ اور ٹوئٹر پر سرگرم نظر آتا ہے، قصہ مختصر یہ کہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے جس کا خمیازہ اسے اگلے ہی میچ میں ناقص ترین کارکردگی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہر ٹیم ہر دن اچھا نہیں کھیل سکتی، ہر بہترین کھلاڑی بھی بدترین دن دیکھتا ہے۔ مصباح اور یونس کی ٹیم نے سالہا سال کی تگ و دو میں یہ سیکھا تھا کہ مخالف کو تھکانا کیسے ہے؟ موجودہ ٹیم میں نوجوانوں کی اتنی کثرت ہے کہ مخالف سے پہلے ہی خود تھک جاتی ہے۔
یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان ٹیم کی کارکردگی کو آسمان کی بلندیوں سے زمین پستیوں پر گرا دیا،تو جواب بالکل سیدھا اور سادھا سا یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی سرفراز الیون کو لے ڈوبی۔
انسانی نفیساتی کے ماہرین کہتے ہیں کہ کامیابی حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اس فتح و کامرانی کو برقرار رکھنا اصل بات ہے، مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی پوزیشن پکی کرنے میں کامیاب رہی لیکن اسی ٹیم کو اس قدر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ کچھ ہی ماہ کے بعد آئی سی سی رینکنگ میں ساتویں پوزیشن پر پہنچ گئی۔
بات رینکنگ کی ہو رہی ہے تو یاد آیا کہ پاکستانی ٹیم اس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں ٹاپ پر ہے اور اسکاٹ لینڈکے خلاف شیڈول دو میچوں کی سیریز میں کامیابی کی صورت میں گرین شرٹس کی پوزیشن پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم ناکامی سرفراز الیون کو پہلی سے دوسری پوزیشن پر ضرور دھکیل دے گی۔گوپاکستانی ٹیم نے لیڈز ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد آئرلینڈ میں باقاعدہ ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور ایڈنبرا میں زور وشور سے باقاعدہ ٹریننگ کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔
میزبان سائیڈ ناتجربہ کار سہی لیکن اس کو کسی بھی طور پر آسان لینے کی غلطی نہیں کی جاسکتی، کرکٹ سینکڑوں ناقابل یقین فتوحات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں تو کمزور ٹیمیں بھی غیر متوقع کارکردگی پیش کرسکتی ہیں،کپتان سرفراز احمد بھی انجانے خوف میں مبتلا ہیں، اس لئے انہوں نے ٹیم کے تمام کھلاڑیوں پر واضح کر دیا ہے کہ میزبان سائیڈ کو کسی طور پر بھی آسان نہ لیا جائے۔
اگر کھلاڑیوں نے کپتان کی ہدایات پر عمل کیا تو سکاٹ لینڈ سے سب اچھا ہے کی رپورٹ آئے گی اور اگر لیڈز ٹیسٹ کی طرح ان دونوں ٹی ٹوئنٹی میچوں کو بھی آسان لیا گیا تو سیریز کے نتائج پاکستان کرکٹ کے لیے پریشان کن ہوسکتے ہیں، دونوں میچوں کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کواپنی سو فیصد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔