خبروں کے مطابق قذافی سٹیڈیم میں ”گو نواز گو“ اور ”رو عمران رو“ کے جوابی نعرے لگانے والوں پر پولیس پل پڑی ہے۔
ورلڈ الیون کا میچ دیکھنے ہم بھی گئے تھے۔ ادھر بھی خوب ”گو نواز گو“ ہوا تھا۔ خیر ہونے کو تو یہ حج کے مواقع پر بھی ہوتا رہا ہے۔ مگر سٹیڈیم میں مسئلہ کچھ بڑھ سکتا ہے۔ حج کے موقع پر لوگ جذبات بھی قابو رکھتے ہیں اور پاکستانی قوم ہجوم کا ایک چھوٹا حصہ ہوتی ہے۔ لیکن سٹیڈیم میں تو سب ہی پاکستانی ہوتے ہیں اور جذبات بھی عروج پر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر سڑک پر بھی دو مخالف نظریات رکھنے والے سیاسی یا نظریاتی گروہ سامنے آ جائیں تو پولیس اور انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ فل سکیل فسادات کا خطرہ حقیقی ہوتا ہے۔
خبروں اور ویڈیو کے مطابق ”گو نواز گو“ اور ”رو عمران رو“ کے نعرے لگانے والے آپس میں لڑ پڑے۔ پولیس نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے ان کو گرفتار کیا۔ ان میں سے ایک مجاہد نے تو شدت جذبات میں ایک پولیس والے کو بھی چمانٹ رسید کر دی۔ اگر پولیس بروقت ایکشن نہ لیتی اور یہ فساد پورے سٹیڈیم میں پھیل جاتا تو کیا ہوتا؟ بیس ہزار کے بھرے ہوئے سٹیڈیم میں بھگدڑ اور فساد سے کتنی ہلاکتیں ہو سکتی ہیں؟ ہمارے ہاں ابھی تک سٹیڈیم میں بھگدڑ سے اموات نہیں ہوئیں مگر فٹ بال کھیلنے والے ممالک میں یہ ہوتی رہتی ہیں۔ کیا ہمارے لئے یہ ایک خوشگوار بات ہوتی کہ اتنے برسوں کے بعد پاکستان میں کوئی میچ ہو اور دنیا بھر میں پاکستان کے کرکٹ کے لئے محفوظ ہونے کی بجائے یہ ہیڈ لائن چلے کہ ”سیکیورٹی انتہائی ناقص ہونے کے سب درجنوں ہلاکتیں ہو گئی ہیں“۔
فٹ بال کے میدانوں میں اب یہ سیکیورٹی پروسیجر کا حصہ ہے کہ شرپسندوں کو سٹیڈیم میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ اور میدان میں اگر کوئی شرپسندی کرے تو اس سے سختی سے نمٹا جاتا ہے۔ سیاسی یا نفرت آمیز نعرے بازی پر سٹیڈیم کے اندر پابندی ہونی چاہیے۔ یہ نعرے لگانے کا مزا جتنا بھی آتا ہو لیکن بہرحال عوام کی حفاظت باقی ہر شے پر مقدم ہے۔ اس بروقت کارروائی پر پولیس کی تعریف کی جانی چاہیے نہ کہ اس کو برا بھلا کہا جائے