لاہور (ویب ڈیسک) نیب نے پی ٹی آئی کے خرچیلے رہنما اور پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کو بھی گرفتار کرلیا۔ ہمیں یہ سمجھنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے کہ اُنہیں اپوزیشن کی خواہش پر گرفتار کیا گیا ہے؟ اپنی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر گرفتار کیا گیا ہے؟
نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ سیاسی طورپر اُن کے پرپُرزے کاٹنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے؟ اُن کا سیاسی قد مزید بڑھانے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے؟ یا واقعی اُن کی لوٹ مار کے کوئی ٹھوس شواہد نیب کے پاس ہیں جِن کی بنیاد پر اُنہیں گرفتار کرنا ضروری ہوگیا تھا؟…. نیب کی ساکھ کو پچھلے کچھ عرصے میں شدید ترین نقصان نہ پہنچا ہوتا، بلکہ نیب نے خود کو یہ نقصان خود بخود ہی نہ پہنچایا ہوتا پھر کِسی شک و شبے میں مبتلا ہونے کے بجائے ہم پورے وثوق سے یہ سمجھتے علیم خان کو صِرف اور صِرف اُن کی لوٹ مار کے ٹھوس شواہد مِلنے پر ہی گرفتار کیا گیا ہے، مگر نیب کی ساکھ پر جتنی اُنگلیاں اب اُٹھ رہی ہیں، اور گزشتہ کچھ عرصے میں اُس کی کارکردگی پر جتنے سوالیہ نشانات لگ چکے ہیں اُس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے علیم خان کی گرفتاری کے کچھ سیاسی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں جو پورے ہونے کے بعد ممکن ہے اُنہیں بھی ضمانت پر رہا یا باعزت بری کردیا جائے جِس کے بعد پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے میں اُن کی راہ کی ساری رکاوٹیں دور ہوجائیں۔
ویسے پنجاب کی وزارت عظمیٰ کی مسند پر نااہل عثمان بزدار کو بیٹھا کر اِس مسند کی جو بے توقیری کردی گئی ہے میں اکثر سوچتا ہوں اُس کے بعد اِس پر کون بیٹھنا پسند کرے گا؟۔ اِس سے تو بہتر تھا اِس عہدے کا اضافی چارج خان صاحب اپنے پاس ہی رکھ لیتے جو شاید غیراعلانیہ طورپر اب بھی اُنہی کے پاس ہی ہے، …. ویسے علیم خان نے جتنا مال پی ٹی آئی پر خرچ کیا، اور اس کے علاوہ جو جدوجہد پارٹی کے لیے کی جس کے نتیجے میں پارٹی روز بروز اقتدار کے قریب ہوتی گئی، ہمیں پورا یقین تھا اقتدار میں آنے کے بعدپنجاب کا وزیراعلیٰ سوائے علیم خان کے کوئی ہوہی نہیں سکتا، ہمیں اب اندازہ ہورہا ہے اُنہیں صِرف مال وغیرہ خرچ کرنے کے لیے ہی پارٹی میں رکھا گیا ہے کیونکہ جتنے کُھلے دِل سے یہ کام وہ اور جہانگیر ترین کرسکتے ہیں شاید ہی اور کوئی کرسکتا ہو۔ اتفاق کی بات ہے دونوں ہی فارغ ہوگئے ہیں اور اُس وقت ہوئے ہیں جب پارٹی ”اے ٹی ایم“ کی ضرورتوں سے تقریباً بالا ہوگئی ہے، علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب نہ بنانے کی منطق یہ دی گئی اُن پر نیب کے کیسز ہیں۔ حیرانی کی بات یہ تھی نیب کے کیسز والا اگر سینئر وزیر ہوسکتا ہے، وفاقی وزیر ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ وزیراعظم ہوسکتا ہے تو وزیراعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا؟
۔اِس سے بھی زیادہ حیران کُن بات یہ ہے نیب کے کیسز والا پارٹی پر کروڑوں روپے خرچ کرے اُس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا، لیکن جب اُس کی مالی ودیگر قربانیوں کے مطابق اُسے کوئی عہدہ دینے کی باری آتی ہے تو نیب کے کیسز آڑے آجاتے ہیں،…. دوسری طرف اُوپر سے کوئی پریشر آجائے تو نیب کے باقاعدہ ”گرفتار شدہ ملزم“ کو پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کا سربراہ بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا، اب علیم خان نے گرفتار ہونے کے بعد سینئر وزارت سے استعفیٰ دے کر اعلیٰ اخلاقیات کی جو روایت قائم کی ہے اُسے مثال بناکر پنجاب کے سابق ”فنکارِ اعلیٰ“پر یہ دباﺅ ڈالا جارہا ہے وہ بھی پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کی سربراہی سے استعفیٰ دے، وہ اتنا اچھا ہوتا نیب کے ملزم کی حیثیت سے یہ عہدہ قبول ہی نہ کرتا، اور یہ جو ہمارے موجودہ ”تبدیلی پسند حکمران“ ہیں یہ اتنے اچھے ہوتے اُسے پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کا سربراہ بنانے کے لیے ہردباﺅ مسترد کردیتے چاہے اِس کی وجہ سے اُنہیں اقتدار سے الگ ہی کیوں نہ ہونا پڑتا۔ اب علیم خان کے استعفیٰ کو مثال بناکر اُس پر پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کی سربراہی سے استعفیٰ دینے کے لیے ایسے دباﺅ ڈالا جارہا ہے جیسے یہ سارا کھیل رچایا ہی اِسی لیے گیا ہو، …. پہلے علیم خان کو مالی طورپر استعمال کیا جاتا رہا اب اُسے سیاسی طورپر استعمال کرکے فائدہ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، …
. جہاں تک علیم خان کی مبینہ مالی بدعنوانیوں کا تعلق ہے کوئی محبِ وطن پاکستانی کسی صورت میں ایسے شخص کی حمایت نہیں کرسکتا جس نے کسی سرکاری عہدے پررہ کرلوٹ مار کی ہو، یہی وجہ ہے جب شریف برادران کی باقاعدہ لُوٹ مار پانامہ لیکس کی صورت میں سامنے آئی محبِ وطن پاکستانیوں کی شدید ترین خواہش اور دعا یہی تھی اُن سے لوٹ مار کا پیسہ واپس لیا جائے، افسوس ہمارے ہاں لُوٹ مار کی سزا صِرف چاردِن کی اے یا بی کلاس جیل کی صورت میں ہی دی جاتی ہے جِس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا،اصل سزا اِن سیاسی ڈاکوﺅں سے ”برآمدگی“ کروانا ہے، جیسے عام ڈاکوﺅں اور چوروں سے کروائی جاتی ہے، سیاستدانوں کو سرخاب کے پر نہیں لگے ہوتے چار دِن کی آرام دہ جیل کے بعد اُنہیں فارغ کردیا جائے، پھر اِس ”سزا“ کو بھی اپنے حق میں یہ کیش کرواتے ہیں اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عوام سے ووٹ ہتھیانے کے عمل کو بڑے فخر سے جاری وساری رکھتے ہیں، یہ ایک المیہ ہے گزشتہ کتنے ماہ سے مبینہ طورپر کرپشن کرنے والے کئی سیاستدانوں کی صِرف گرفتاریاں ہورہی ہیں، اور کچھ نہیں ہورہا، گرفتاریاں بھی صِرف سیاستدانوں کی ہورہی ہیں، اُن کے سیکڑوں ”سہولت کار“ افسران بالا کی صورت میں اب بھی اہم ترین عہدوں پر موجود ہیں۔
اُن کی طرف نیب سمیت کوئی ادارہ دیکھنا بھی پسند نہیں فرما رہا، مالی طورپر اِس ملک کی بربادی کے اصل ذمہ داران بیوروکریٹس ہیں جو خود سیاسی حکمرانوں کو کرپشن کے راستے دِکھاتے ہیں، تاکہ اُس کی آڑ میں وہ خود کرپشن کرسکیں، گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے لیے نیب نے دوچار بیوروکریٹس کو گرفتار کررکھاہے، یہ ”خانہ پُری“ بھی شاید یہ پیغام دینے کے لیے کی گئی ہے کہ صرف سیاستدانوں کو نشانہ نہیں بنایا جارہا، لوٹ مار کرنے والے سیاستدان اور بیوروکریٹس اِس اطمینان کے تحت رتی بھر فکرمند نہیں ہوئے کہ پاکستان میں کرپشن کی بڑی سے بڑی سزا چار دن کی آرام دہ جیل ہے، اور معاشرے کی جو ذہنی حالت ہے اُس کے مطابق چار دِن کی جیل کے بعد وہ ”ہیرو“ بن کر باہر نکلتے ہیں۔ زرداری ایسے ہی تو نہیں بڑا کُھل ڈھل کر یہ کہتا ہے ”ہمیں جیلوں سے کیا ڈراتے ہو، یہ جیلیں ہم نے پہلے بھی دیکھی ہیں“ ،….پھر اُس کے بعد یہ بڑے بڑے مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں جیسے زرداری جیل کاٹنے کے بعد صدر بن گیا تھا اور 1999ءمیں چند ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد نواز شریف جدہ سے واپس آکر دوبارہ وزیراعظم بن گیا تھا۔ اِس پس منظر میں تو ہم اب بھی اِسی شک یا یقین میں مبتلا ہیں جتنے سیاستدان کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہورہے ہیں، یا آئندہ دِنوں میں ہونے والے ہیں مستقبل قریب میں وہ سب کسی نہ کسی اہم منصب پر فائز ہوں گے، بلکہ ابھی سے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سربراہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، صرف ایک علیم خان ہے جِس کے بارے میں، میں سمجھتا ہوں رہا ہونے کے بعد بھی اُس کی سیاسی و مالی قربانیوں کے مطابق کوئی عہدہ اُسے شاید نہ ملے کیونکہ اُس کی گرفتاری کی اصل کہانی سے میں واقف ہوں !!۔