تحریر : خضر حیات تارڑ
سانحہ ماڈل ٹائون ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔جس میں نہتے اور پر امن شہریوں پر گولیاں چلائی گئیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہتی خواتین کو بھی براہ راست گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔پرامن اور نہتے شہریوں پر ظلم و بربریت کا ایک ایسا عمل تھا،جو اسلامی،آئینی،قانونی،جمہوری اور بین الاقوامی اقدار کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔کیا اس کے ذمہ داران کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق بنتا ہے؟انہیں شرم نہیں آتی ،کیونکہ یہ پر امن شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے شرم و حیا سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹائون پر جس عزم کا اظہار کیا تھا،کیا اس میں کوئی کمی(تبدیلی)آئی ہے؟ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ دیت کا تو ہے ہی نہیں۔وہ تو شہدا کے خون کا بدلہ آئین و قانون کے مطابق قصاص کی صورت میں مانگ رہے ہیں۔ان کا تو کہنا ہے کہ انقلاب کیلئے جانیں دینے والے کارکن تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں،انکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
یہ ظالم اور قاتل حکمران ہمیں ڈرانے اورجھکانے کیلئے جو بھی ہتھکنڈے استعمال کریں،(درجنوں جھوٹے مقدمات،میڈیا ٹرائل،ڈیل جیسی گھٹیا اور لغو تہمتیں )جو بھی حربہ آزما لیں ہم نہ ڈرنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ۔ہم اپنے شہدا ء کے خون کا حساب لیں گے۔ہم قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچا ئیں گے۔قاتلوں کو پھانسی کی سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا!
PTIکے سینیئر رہنما محمود الرشید نے کہا کہ” حکومت ان شہداء کے خون کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہی ہے”(جیسا کہ JITحکومتی مرضی کے مطابق بنوانا،اصل رپورٹ دبانا، اقتدار کے ایوانوں کے پیچھے چھپنا) مگر کب تک؟ یہ ہضم نہیں ہو گا۔اس کا انہیںبا لآخر جواب دینا ہو گا۔ڈاکٹر طاہر القادری کی اگر حکومت کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ڈیل ہوئی ہوتی تو وہ خاموشی اختیار کرلیتے۔ مگر وہ تو علاج کے بعد وطن واپسی پر قاتلوں کو للکار رہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر نقاب پوش کرپٹ ظالم حکمرانوں کے چہرے بے نقاب کر رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام کے حقوق کی بحالی و بازیابی،حقیقی جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کیلئے طویل جدوجہد کرنے والے عوامی لیڈر ڈاکٹر طاہر القادری پر ڈیل جیسی گھٹیا اور لغو تہمت لگانے سے کیا قاتل شہدا ء کے خون سے بری الذمہ ہو جائیں گےَ؟کیا شہداء کے لواحقین کو صبر آجائے گا؟کیا کوئی منہاج القرآن کے مظلوم کارکنوں کے خون کی قیمت چکا سکتا ہے۔
ایسے تمام سیاسی ومذہبی کارکنوں ،سرکاری وغیر سرکاری اہلکاروں،متعصب اور جانبدار صحافیوں،اینکروں اور نام نہاد کالم نویسوں و تجزیہ نگاروں کواس مکروہ اور شرمناک پروپیگنڈہ سے باز آجانا چاہئے۔ انصاف کا تقاضہ توجبھی پورا ہوسکتا ہے،جب منہاج القرآن کیFIRکے مطابق قانونی کاروائی شروع کر کے ملزموں کو گرفتار کیا جائے اور انکے مجرم ثابت ہونے پر انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔ مغل شہزادے بننے والے عدل جہانگیری کو بھی یاد رکھیں۔
تحریر : خضر حیات تارڑ