تحریر : عظمت رسول اعون
جب ہم اداروں کی سطح پر کسی ایماندار اور فرض شناس آفیسر کا کردار دیکھتے ہیں تو اس آئینے میں بہت سے چہرے واضح طور پر عیاں ہوتے ہیں آٹے میں نمک کے برابران افراد کی حبالوطنی پر انگلی نہیں اُٹھائی جاسکتی انہیں افراد میں ایک نام محترمہ طاہرہ چشتی کا ہے جنہوں نے انتہائی قلیل عرصہ میں شعبہ تعلیم کو دوران ِ تعیناتی بام عروج پر پہنچایا بد قسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں ایمانداری اور فرض شناسی ایک جرم بن کر رہ گئی ہے۔
وطن عزیز میں ان محب وطن افراد کو قدم قدم پر مختلف مافیاز کی مزاحمت کا سامنا رہتا ہے یہ مافیاز نہ صرف اُن کے فرائض منصبی میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ان کے محکمہ جات میں اپنے مضبوط نیٹ ورک کی بنا پر یہ مافیاز اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں محترمہ طاہرہ چشتی بھی اُن کے ان مقاصد کی زد میں ہیں لیکن وہ ان مافیاز کے سامنے سینہ سپر ہیں اُن کو جھوٹی درخواست بازی اور جن الزامات کی بنا پر اُن کے عہدہ سے وقتی طور پر ہٹایا گیا ہے اُن الزامات میں کہیں بھی حقیقت نہیں مثال کے طور پر تعلیم اداروں میں فرنیچر کی پرچیز پر سوال اُٹھایا گیا ہے لیکن اس کا جواب بڑا واضح اور مدلل ہے کہ فرنیچر کی پرچیز اکتوبر 2014سے شروع ہوئی۔
جب میڈم طاہرہ چشتی ای ڈی او کی نشست پر ہی نہیں تھیں اور یہ پرچیز سات کروڑ لاگت سے ہوئی جس کا اختتام 17اپریل2015کو ہوا ضلع لیہ کے کل 297سکولز میں سے 240سکولز کے مذکورہ سامان کی پیمنٹ اور مطلوبہ فرنیچر ولوازمات اُن کی تعیناتی سے قبل ہی مل چکا تھا جبکہ طاہرہ چشتی کی جوائننگ 18مئی 2015کو ہوئی پھر ان حقائق سے کیسے نظریں چرائی جاسکتیں ہیں کہ طاہرہ چشتی کو سزا محض اُن کی اُس فرض شناسی کی بنا پر ملی اُنہوں نے ایک روایت کو توڑا جس میں قومی خزانے پر وہ ٹیچرز بوجھ بنے ہوئے تھے جو عرصہ دراز سے تنخواہیں وصول کر رہے تھے ان اساتذہ کی پشت پر بشیر کنویرا ،احسان اللہ گرمانی جیسے افراد کا ہاتھ تھا جنہوں نے محکمہ تعلیم کو اپنی نام نہادسوکالڈ یونین کی بنا پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اسی مافیا کے زیر اثر کام چور اساتذہ نے کئی سال سے ایم فل کی خاطر یونیورسٹیز میں داخلے لے رکھے تھے اور وہ ان داخلوں کے دوران محکمہ سے تنخواہیں بھی موصول کر رہے تھے۔
درجہ چہارم کے ملازمین کی کثیر تعداد ضلع لیہ کے بااثر افراد کے ڈیروں پر کام کرتی تھی اور تنخواہیں محکمہ تعلیم سے موصول کرتے تھے طاہرہ چشتی نے ان فراد پر ہاتھ ڈالا اور باثر افراد جو سیاست کے منصب پر فائز ہیں اُنہیں یقینا اس کا قلق ہونا تھا کہ پہلی بار کون ہے جو روایت کو توڑ رہا ہے ،کلرک مافیا کے غلط کاموں کو روکا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو حاضر نہیں ہوتے تھے وہ فری میچور ریٹائر منٹ لے گئے اُنہی کے دور میں درجہ چہارم کے 915ملازمین کو اپ گریڈ کیا گیا جبکہ ایک عشرے سے رکی ہوئی ای ایس ٹی ٹیچرز کو ایس ایس ٹی کے باوقار عہدے پر فائز کیا گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ٹی ڈی اے کی ہیڈ مسٹرس جس نے نہ صرف دیانت میں خیانت کی بلکہ بچوں کے روشن مستقبل پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا محکمہ تعلیم میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر تعینات ان محترمہ نے 31مارچ 2015کے سالانہ پانچویں اور آٹھویں کے نتائج میں جو خیانت کی اُس کے تحت جو ایوارڈ لسٹیں مذکورہ ہیڈ مسٹریس نے پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کو بھجوائیںوہ بوگس فہرستیں تھیں جو انکوائری میں بھی بوگس ثابت ہوئیں۔
محترمہ طاہرہ چشتی نے چونکہ ایسے عناصر پر ہاتھ ڈالا اور حکام بالا کو بوگس فہرستوں کے بارے میں آگاہ کیا اس طرح ایسے عناصر بھی طاہرہ چشتی کے خلاف میدان میں نکل آئے بالآ خر محکمہ ایجو کیشن میں چھائے مافیا نے اُس فرض شناس آفیسر کو جس نے سی ایم روڈ میپ میں ضلع لیہ کوپنجاب بھر میں 20نمبر سے تیسرے نمبر پر لاکر تعلیم کو بام ِ عروج بخشا نسل نو کے مستقبل کو محفوظ کیا اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اُنہیں اُن کی شاندار پر فارمنس پر اڑھائی لاکھ روپے کے انعام سے نواز ،محکمہ تعلیم پنجاب کی وہ قابل داد آفیسر جس ملتان میں بھی اپنی تعیناتی کے دوران وزیر اعلیٰ روڈ میپ کے تحت اڑھائی لاکھ روپے کی کثیر رقم کا انعام پایا۔
جھوٹی درخواست بازی کی بھینٹ چڑھ گئیں اور اُنہیں ڈسٹرکٹ ایگزیکٹو کی نشست سے ہٹا دیا گیا اُن پر جھوٹی درخواستوں میں ایک الزام فرنیچر انکم ٹیکس کے حوالے سے جسے ایف بی آر کی ویب سائیٹ جھٹلا چکی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب جن کا نعرہ ہے تعلیم سب کیلئے وہ محکمہ تعلیم میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں پر ہاتھ ڈالیں اور طاہرہ چشتی جیسی فرض شناس آفیسر کو مزید کسی بالا اور ذمہ دار عہدہ پر تعینات کر کے اس مافیا کے مذموم ارادے خاک میں ملادیں کیونکہ طاہرہ چشتی جیسی باوقار ،فرض شناس ،ایماندار اور محب وطن آفیسرز وطن عزیز کا سرمایہ ہیں۔
تحریر : عظمت رسول اعون