تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
سچ کو آنچ نہیں چوہدری نثار کے منہ سے سچ نکل ہی جاتا ہے وہ جس پیرائے میں بات کریں بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ انہوںنے حال ہی میں کہا کہ جس کی دم پر میرا پائوں آجائے وہی چیخنے لگ جاتا ہے اب ان کی بات درست ہوتی نظر آرہی ہے کہ اچانک واقعی شریفوں کی دموں پر ان کا پیرآہی گیا ہے۔
نیب سرکاریوں کے زیر تفتیش مقدمات کو فائنل کرچکی ہے۔ اور اب صرف مقدمات کو چلانے کی اجازت لینا اور اس کا نوٹیفکیشن ہی باقی ہے۔ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوںاوراپنوں کی دم پر اپنا ہی پائوں کی طرح بالآخرنیب نے حکمرانوں ، اس کی فرینڈلی اپوزیشن ان کے ساتھی بیورو کریٹوں اور کاروباری صنعتکار دوستوں کرپٹ وڈیروں انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں کی کرپشنوں پر تحقیقات مکمل کر ہی لی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شیر کی دم پر پائوں آتے ہی بلبلاہٹ اور غراہٹ شروع ہو گئی ہے۔حتی کہ عمرانی جیالوں اورکے پی کے کے وزراء کی کرپشنیں بھی زبان زد عام ہیں۔اب بطور وزیر اعظم نیب پر تنقید کرنا ان کے شایان ِشان نہیں لگتا۔ایف آئی اے ،نیب اگر کرپٹ حکمرانوں یعنی مرکزی ،کے پی کے اور سندھ کی حکومت کے کار پردازوں پر ہاتھ ڈالنے لگی ہے اور ان کی پکڑ دھکڑ کی تیاریاں کر لی ہیں۔ تو چیخ و پکار کہ حکومت انھیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔اور یہ کہ وہ شریف افسران یعنی حکومت کے یاروں کو دھمکانا بند کریں وگرنہ حکومت اپنا راستہ اختیار کرے گی۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہاراکی طرح کوئی نام نہاد آرڈیننس لانے کی باتیں ہورہی ہیں تاکہ نیب کو نتھ ڈالی جاسکے مگر جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتا ہے خود ہی اس میں گر کر رہتا ہے۔اب نیب کے اختیارات کو کم کرنا کسی صورت ممکن ہی نہ ہے کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔مقدمات فائنل ہو چکے ہیں سپریم کورٹ تک میں لسٹیں داخل کی جاچکی ہیں اب تو صرف اتنا دیکھنا ہے کہ پکڑ دھکڑ میں کون اول دوئم پوزیشنوں پر آتا ہے۔ پاکستانی عوام تو ان کے خزانوں کو لوٹ لوٹ کر بیرونی ممالک کے بنکوں کو بھرنے کے عمل کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی نیب خود انھی کی گردنوں میں رسہ ڈال کرگھسیٹنے کی تیاریوں میں ہے عوام تو چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے مگر مچھوں،اژدھا نما جاگیرداروں انگریز کی ناجائز اولاد وڈیروں مزدوروں کا خون چوسنے والے سود خور صنعتکاروں کو کھلے عام چوکوں چوراہوں پر لٹکایا جائے ۔ان کے ناجائز حرام مال سے ڈھول بنے ہوئے پیٹوں کو پھاڑ کر غریب عوام کے ملک کا سرمایہ برآمد ہو۔اوراس سے ہم سال 2016میں واجب الادا اُدھار لی گئی رقوم کی قسط50ارب ڈالر ادا کرنے کے قابل ہو سکیں اگر اب آمدہ قسط ہم ادا نہ کرسکیں یا کسی سے مزید قرضے لے کراور ذاتی صنعتیں اونے پونے داموں بیچ کربھی ہمیں ہڑپ کرنے کی خواہشمند سامراجی قوتوں سے جان نہ چھوٹی تو ہم ڈیفالٹ ملک قرارپا جائیں گے۔
میرے منہ میں منوں خاک کہ ایسا ہو مگر حکمرانوں کے اللے تللے،عیاشیاںاور جو پراجیکٹ عوام سنے کبھی مانگے ہی نہیں ان پر کھربوں لٹا ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے کوئی اندھا ،کانا،بہرایا پاگل بھی ایسے عمل نہیں کرسکتا جو حکمران خود بخود کرنے پر تلے ہوئے ہیں لاہور شہر سارا اکھاڑ ڈالا ہے کس احمق نے ان کو یہ مشورہ دیا۔لگتا تو بالکل نہیں کہ کسی بھی بھوک سے بلکتے ،خود کشیوں پر تیار،غریب شخص نے ایسا بیوقوفانہ مطالبہ کیا ہو گادراصل مال بنائو اور بھاگ جائو “زرداری ایکشن “اب موجودہ شریفین بھی کرنا چاہتے ہیں۔کہ اب دور دور تک آئندہ انتخابات میں کامیابی کا امکان کسی شریف اور عمران کانظر نہیں آتااس لیے مال متال بنا کر بیرون ملک میں تیار کردہ پلازوں ،فلیٹوں کو ہی شریفین سدھار جانا چاہتے ہیں۔
عمران وہی دھاندلی کا رونا رونے اور دھرنوںمیں مشغول رہے گا۔مگر کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے شہنشائے ایران کو تو کفن دفن کی بھی نہ تو مہلت ملی اور نہ کوئی ملک دفنانے کے لئے دو گز جگہ دینے کو تیار تھااور کئی بادشاہتیں تو ایسی بھی گذری ہیں کہ سونا جواہرات زیر زمین تہہ خانوں کے محلات میں جمع کیے اور جب براوقت آن پہنچا عوام اٹھ کھڑی ہوئی توفرار ہونے کی کوششوں پر اپنے ہی محافظوں نے بھون ڈالا۔اب تو لگتا ہے کہ احتساب کے معنی ہی تبدیل ہو گئے ہیں اور صرف مخالفین پر ہی اس کا کوڑا برس سکتا ہے یا لوہے ترکھانے سے درجنوں فیکٹریوں کے مالک بن جانے والے بھی اس کی زد میں آسکیں گے قوم مکافات عمل کی منتظر ہے اور خدائی طاقت تو گدائوں کو شہنشاہ اور شہنشائوں کو گدا بنا سکتی ہے۔
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اپنے بچائوکے لیے آئین کی دفعات اسمبلی قراردادیں آرڈیننس ان کھٹن مرحلوں کوطے کر پائیں گے یا پھر اللہ اکبر اللہ اکبرکی صدائیں بلند کرنے والے مظلوم عوام کی دعائیں کارگر ہو کرخدائی طاقت اور اس کی تحریک اپنا عمل کرکے رہے گی۔ خدا کی طرف سے قرار دیے گئے دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام سود کے پیروکارصنعتکارخواہ حکمران ہوں یا پی پی یا عمرانی چرنوں میں چھپے ہوئے ہوں لوڈ شیڈنگ تک ختم نہ کرسکے بچوں کو تعلیم پر آمادہ تو کیا کریںگے۔ایک بے یار و مددگار،بے وسیلہ شخص غلام حسین کے بیٹے محمد اویس سکنہ عقب ذیلدار ٹائون بہاولنگر کوجس نے 1100میں سے میٹرک کے امتحان میں 981نمبر یعنی89%حاصل کیے تھے۔اسے وظیفہ تک نہیں دے سکے وہ کیا حکمرانی کریں گے؟میٹرک کا رزلٹ عرصہ ہوا نکل چکاتمام در کھٹکھٹائے گئے کیا وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سیکریٹری و وزارت تعلیم مگر اسے نہ وظیفہ مل سکا اور نہ وہ تعلیم جاری رکھ سکا۔
احتساب قوانین میں تبدیل کے لیے اسمبلی سے ترمیم لانے کی کوششیں عروج پر ہیں تاکہ کرپٹ حکمران سیاستدانوں پر ہاتھ نہ ڈالا جاسکے ایسی ترمیم کے لیے اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ کی طرح حکمران،فرینڈلی اپوزیشن اور نام نہاد نیا پاکستان بنانے کے علمبردارعمران بھی متفق ہیں کہ ان سبھی کے کسی بھی ساتھی کو نیب گردن زدنی قرار نہ دے سکے۔جب کہ معیشت سکڑ رہی ہے اور جغادری سیاستدانوں کے بنک اکائونٹس اندرون و بیرون ملک ہاتھی کے پیٹ کی طرح پھولتے جارہے ہیں ۔ایسے افرادکی منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں نیب تو شاید نہیں مگراللہ کے متبرک نام سے چلنے والی تحریک ہی ضبط کرسکے گی کہ اللہ اکبرسدا قائم و دائم اور غیر فرقہ وارانہ اور کسی مسلک کے جھگڑے سے پاک لفظ ہے۔سدا رہے گا نام اللہ کا۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری