اسلام آباد(ایس ایم حسنین) تاجکستان کے صدر امام علی رحمان ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں بھارتی اکثریت سے کامیابی کے بعد پانچویں مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ 68 سالہ امام علی رحمان 1992 سے تاجکستان کے صدر کی حیثیت سے ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اور اتوار 11اکتوبر کو ہونے والے عام انتخابات میں انھوں نے 90 فیصد ووٹ حاصل کیے۔اس طرح اب وہ مزید سات سال تک صدارتی عہدے پربراجمان رہ سکتے ہیں۔ تاجکستان کے آئین کے مطابق وہاں ہر سات سال بعد الیکشن ہوتے ہیں ۔ اس طرح گذشتہ 28 برسوں میں امام علی رحمان کا یہ پانچویں الیکشن تھا. اس سال اپریل میں صدر رحمان کے صاحبزادے رستم امام علی کو پارلیمان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ سیاسی لحاظ سے یہ ملک کا دوسرا اہم ترین عہدہ ہے۔ تاجکستان میں اس عہدے کے لیے کم از کم عمر 35 سال تھی لیکن صدر کے بیٹے کی عمر اس سے کم تھی۔ ایسے میں قواعد و ضوابط میں تبدیلی کر کے کم از کم عمر 30 سال کر دی گئی تاکہ 32 سالہ رستم امام علی کے سامنے کوئی قانونی رکاوٹ نہ آ سکے۔ اسی طرح صدر رحمان کی سب سے بڑی صاحبزادی اُزادا صدارتی انتظامیہ کی انچارج ہیں جبکہ ان کے شوہر ‘نیشنل بینک آف تاجکستان‘ کے نائب سربراہ ہیں۔ صدر رحمان کے آبائی علاقے سے تعلق رکھنے والے ان کے دیگر عزیز و اقارب بھی اہم حکومتی عہدوں پر براجمان ہیں۔
تاجکستان کے مطلق العنان رہنما امام علی رحمان پانچویں بار صدر منتخب ہو گئے ہیں، جس کے بعد ملک پر ان کی اور ان کے خاندان کی گرفت بظاہر اور مضبوط ہوگئی ہے۔
اڑسٹھ سالہ امام علی رحمان سن 1992 سے تاجکستان کے حاکم ہیں۔ ان 28 برسوں میں یہ ان کا پانچواں الیکشن ہے جس میں وہ بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔
ابتدائی سرکاری نتائج کے مطابق اتوار گیارہ اکتوبر کے الیکشن میں انہوں نے 90 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یوں وہ مزید سات سال صدراتی عہدے پر براجمان رہ سکتے ہیں۔
ایک صدر رحمان سب پہ بھاری
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اس کی معاشی حالت پڑوسی ملکوں کی نسبت کافی کمزور رہی ہے۔ وہاں اپوزشن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے اور میڈیا مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں ہے۔
مرکزی الیکشن کمیشن کے مطابق اتوار کو ووٹر ٹرن آؤٹ 85 فیصد سے بھی زائد رہا۔ الیکشن میں بظاہر صدر امام علی رحمان کے مدمقابل پارلیمان کے ایوان زیریں کے چار امیدوار تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان پر تنقید کی ہمت یا کوشش نہ کی۔
صدر امام علی رحمان کے حمایتوں کے مطابق وہ ملک میں امن و استحکام کی علامت ہیں۔ ان کے حمایتی ملک کو نوے کی دہائی کی خانہ جنگی سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بظاہر وہ شہریوں کی بنیادی آزادیوں کی پامالیاں نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں۔
نوے کی خانہ جنگی
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تاجکستان کے متحارب گروپ ایک دوسرے کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔ مرکزی حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان لڑائی کوئی پانچ برس تک جاری رہی۔ خیال ہے کہ اس خانہ جنگی میں کم از کم 23 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔
لیکن پھر سن 1997 میں صدر رحمان نے اپوزیشن کے ساتھ شراکت اقتدار سے متعلق ایک امن معاہدے پر اتفاق کیا۔ اس کے تحت حزب اختلاف کو حکومتی عہدوں میں تیس فیصد حصہ اور پارلیمان میں تقریباﹰ ایک تہائی نشستیں دی گئیں۔
ان دنوں صدر رحمان کو سب سے زیادہ مخالفت ملک کی اسلامی احیاء پارٹی (آئی آر پی ٹی) سے تھی۔ تاہم انہوں نے اپنی کمزور پوزیشن کے باعث اس کا عوامی مینڈیٹ قبول کرنے کا تاثر دیا۔
فردِ واحد کی حکمرانی کی طرف سفر
تاہم چند برس بعد جب انہیں موقع ملا تو وہ شراکت اقتدار کے معاہدے سے پیچھے ہٹتے گئے اور بالآخر اپوزیشن کے ارکان کو ان کے عہدوں سے نکال باہر کیا۔
سن 2015 میں انہوں نے ملک کی دوسری بڑی جماعت اسلامی احیاء پارٹی (آئی آر پی ٹی) پر پابندی لگا کر اسے ایک ‘دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا۔
سن 2016 میں انہوں نے ملک کی کمزور پارلیمان سے آئینی ترامیم منظور کرائیں جن کے تحت وہ جتنی بار چاہیں صدراتی عہدے کے لیے الیکشن لڑ سکتے ہیں اور اس حوالے سے امیدواروں پر اب کوئی قدغن نہیں۔
یوں وہ تاجکستان کے مطلق العنان رہنما بن گئے اور اب انہیں اس ملک کے تاحیات رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ملک میں جگہ جگہ ان کی قد آور تصاور آویزاں ہوتی ہیں اور سرکاری مشینری یہ یقینی بناتی ہے کہ جب بھی ان کا ذکر آئے تو ان کا نام عزت و احترام سے لیا جائے۔