ٹرمپ کا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ چل گیا جگہ ہیلری کی ہار نے بہت سوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہیلری کی شکست کے ساتھ ہی کئی لوگوں کے چہرے لٹک گئے۔ ایک اہم پاکستانی سیاسی شخصیت کے کروڑوں ڈالرز بھی ڈوب گئے۔ڈالرز ڈوبنے کے بعد ان کے خواب بکھر گئے ہیں۔ ایک اور اہم سیاسی خاندان کے کچھ نمائندے ایک برادر ملک کے حکمران خاندان کے روبرو آس امید لئے بیٹھے ہیں، کہا جا رہا ہے کوئی کاغذ دے دو۔ تادمِ تحریر کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اس ناکامی کی بڑی وجہ وہاں چہروں کی تبدیلی ہے، نئے چہرے یمن والے معاملے کو بھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر روٹھے ہوئوں کو منانے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
اس خاکسار نے امریکی الیکشن سے چار ماہ قبل پہلی مرتبہ لکھا کہ ٹرمپ جیت جائے گا پھر الیکشن سے دو ہفتے پہلے دوبارہ لکھا کہ ٹرمپ کی جیت یقینی ہے اور پھر آخری مرتبہ الیکشن کے روز تحریر کیا کہ ٹرمپ کی جیت ہو گی، ساتھ ہی اُس کے جیتنے کی وجوہات بھی بیان کر دیں۔ جب میں نے تیسری اور آخری مرتبہ لکھا تو ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ ’’ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ ہیلری جیت جائے گی، آپ نے کیسے لکھ دیا کہ ٹرمپ جیت جائے گا‘‘ میں نے انہیں وضاحت کی اور وجوہات بتائیں کہ ان وجوہات کی بنیاد پر ٹرمپ جیت جائے گا۔
خواتین و حضرات! مجھے سروے کرنے والی کمپنیوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا کیونکہ ان کے سروے کرنے کے طریقے ہی غلط اور جعلی ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھے نجومیوں کو کبھی اس اہل نہیں سمجھا کہ ان کی باتوں پر توجہ دوں حالانکہ میرے ملک میں شام چھ بجے سے رات بارہ بجے تک کئی قوال ہمنوائوں سمیت پیش ہوتے ہیں، بعض کمنٹری کرنے والوں کی سانس پھول جاتی ہے۔ پاکستان کا سارا میڈیا ہیلری کو جتوا رہا تھا سوائے اس خاکسار کے۔ سروے اور نجومی بھی ہیلری کے ساتھ تھے، امریکی میڈیا کی اکثریت بھی پہلی مرتبہ دھوکہ کھا گئی۔ گزشتہ رات میں نے پاکستانی ٹی وی چینلز پر کئی ’’قوالیاں‘‘ سنیں، اب کئی بڑے اینکرز غم غلط کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میڈیا کے لوگ کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں، خود کوئی تجزیہ نہیں کر رہے بلکہ ایک بھیڑ چال ہے۔ مجھے چار ماہ قبل امریکہ میں مقیم دوستوں نے بتایا تھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اگلا صدر ٹرمپ ہو گا، میں نے آخری دنوں میں بھی دوستوں سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ویسا ہی ہو گا۔ ٹرمپ کی ساری تقریریں امریکیوں کے مسائل پر مشتمل تھیں، اس نے امریکیوں سے کہا کہ ہمیں اپنے گھر کی فکر کرنی چاہئے۔ اس نے امریکی دیہات کو بھی ایڈریس کیا۔ اس نے امریکی معیشت کی بہتری کی باتیں کیں۔ اس کی اِس فکر نے اُسے امریکیوں میں مقبول بنا دیا۔ اُس کی تقریروں نے لابنگ فرموں کو لتاڑ کر رکھ دیا۔
الیکشن ہارنے کے بعد ہیلری سے تقریر نہیں ہو رہی تھی، حامیوں کے اصرار پر آنسوئوں کے ساتھ تقریر کی، ٹرمپ نے سب کا شکریہ ادا کیا، ٹرمپ کی الیکشن جیتنے کے بعد پہلی تقریر ان کی پہلی تقریروں سے بہت مختلف تھی بلکہ مناسب تھی۔ اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دیا لہٰذا پاکستانیوں کو زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ری پبلکن ہمیشہ پاکستان کے ساتھ عمدہ مراسم رکھتے ہیں۔ ڈیمو کریٹس اتنے اچھے تعلقات نہیں رکھتے۔ جہاں تک امریکہ میں مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہو گا جیسا کہا گیا کیونکہ ایک ٹرمپ کا مطلب پوری امریکی انتظامیہ نہیں، وہاں کانگریس بھی ہے، پینٹاگان بھی ہے اور بھی بہت سے ادارے ہیں جو پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔ وہاں ایک شخص کے بدلنے سے سب کچھ نہیں بدل جاتا۔ یہاں ایک اور حقیقت عرض کرتا چلوں کہ اگر ٹرمپ نے امریکہ کے اندرونی حالات کی بہتری کے لئے کوشش کی تو وہ دوبارہ جیت جائیں گے اور اگر انہوں نے امریکہ سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی تو پھر انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مجھے حیرت ہے کہ خود کو امریکیوں کا ماہر سمجھنے والے حسین حقانی بھی مار کھا گئے۔ ساری لابنگ کا لاٹو بن گیا۔ ایک اہم سیاستدان جو تیار تھے کہ جونہی ہیلری جیتے گی تو وہ اگلے دن پاکستان آ جائیں گے۔ اب ان کا آنا بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ میں پارٹی عہدوں کا اعلان کرنے کے بعد جنوبی پنجاب کے لئے مخدوم احمد محمود کو صدر اور نتاشہ دولتانہ کو سیکرٹری جنرل بنا دیا ہے۔ دولتانہ خاندان کے داماد نثار کھوڑو کو سندھ کا صدر بنایا گیا ہے۔ وسطی پنجاب کے لئے قمر زمان کائرہ صدر اور چوہدری منظور سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ پتہ نہیں اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کارل مارکس کے نظریئے پر چلے گی یا لینن کے اصولوں پر۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب شمسی توانائی پر چلے گی، جس دن سورج چڑھ گیا، پارٹی چل پڑی اور جس دن سورج نہ چڑھا، بس اُس دن پارٹی بیٹھی رہے گی۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں جو چند لوگ رہ گئے ہیں، اُن کی تقسیم یقینی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تو پہلے ہی تین چار گروپ بنے ہوئے ہیں۔
اگلے ہفتے سپریم کورٹ میں اہم مقدمات کی سماعت ہو گی۔ ان مقدمات کے فیصلے دودھ اور پانی کو الگ کر دیں گے۔ ایک اور مقدمے پر ایک ’’مزاحیہ کمیشن‘‘ بنایا گیا ہے۔ ایک اہم اور سینئر مسلم لیگی رہنما نے اپنے خاندان میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ ’’یہ فوج کے ساتھ کیا کر رہے ہیں‘‘ ہو سکتا ہے آنیوالے دنوں میں یہ اہم رہنما خود کو مسلم لیگ ن سے الگ کر لیں۔
ڈاکٹر عشرت العباد چودہ سال بعد گورنر ہائوس سندھ سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کے بانی کی محبت سے گورنر بنے اور انہیں کی محبت انہیں لے ڈوبی۔ اس محبت کی ’’جزا‘‘ انہیں مل کر رہے گی، ایم کیو ایم کے قائد کی متنازع تقریر کے باوجود عشرت العباد محبت کا سفر جاری رکھنا چاہتے تھے (مگر پاکستان سے محبت کرنے والے آڑے آ گئے۔پی ایس پی کے سربراہ نے تو صرف پردہ چاک کیا تھا۔
امریکہ سے روبینہ خان ایک پیغام میں لکھتی ہیں کہ ’’چوروں کی دو قسمیں ہیں، عام چور اور سیاسی چور‘‘۔ عام چور آپ کا مال، بٹوہ، گھڑی اور موبائل فون وغیرہ چھین لیتے ہیں جبکہ سیاسی چور آپ کا مستقبل، خواب، عمل، تعلیم، صحت، آپ کی قوت اور مسکراہٹیں چھین لیتے ہیں لیکن غور فرمایئے کہ ان دونوں چوروں میں عجیب و غریب بنیادی فرق ہے۔ عام چور آپ کا انتخاب کرتا ہے جبکہ سیاسی چوروں کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں۔‘‘
روبینہ خان کی باتیں درست ہیں، امریکہ میں ٹرمپ اسی لئے تو جیتا ہے کہ اس نے عام لوگوں کی بات کی، اپنے گھر کی بات کی، ہمیںبھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ میں نے ٹرمپ کی جیت پر پاکستانی سیاستدانوں کے پیغامات کا غور سے جائزہ لیا ہے صرف عمران خان کا پیغام ڈھنگ کا ہے کہ ’’اب ہمیں پاکستان پر توجہ دینی چاہئے، پاکستان کی فکر کرنی چاہئے۔ ‘‘ واقعی ہمیں اپنے گھر پر توجہ دینی چاہئے ورنہ ابھی تو حالات ایسے ہیں کہ ناصر بشیر کا شعر برمحل ہے؎
ناصرؔ بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی
سایہ سا بچھ گیا ہے میرے آنگن میں خوف کا
بشکریہ جنگ