تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
کہن سالہ ”جوان” محترم الطاف حسن قریشی نے ایک بار پھر محفل سجادی ۔موضوع تھا ”بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف اقدامات کا سد باب” َ۔ علمی وادبی اور سیاسی ومذہبی حلقوں میں قریشی صاحب کے احترام کا یہ عالم ہے کہ وہ جس کسی کو بھی ”پائنا” کے اجلاس میں بلاتے ہیں ،دوڑہ چلا آتا ہے ۔مخدوم جاوید ہاشمی خصوصی طور پر ملتان سے تشریف لائے ۔اُنہوں نے کہا کہ وہ ملتان سے اتنا طویل سفر کر کے لاہور نہیں آسکتے تھے لیکن جب قریشی صاحب کا بلاوہ آیا اور موضوع کا پتہ چلاتو وہ دوڑے چلے آئے ۔اجلاس میں ایس ایم ظفر ،لیاقت بلوچ ،مجیب الرحمٰن شامی ،شمشاداحمد خاں ،احمر بلال صوفی ،میجر جنرل (ر) محمد جاوید ،حفیظ اللہ نیازی ،ڈاکٹرعمرانہ مشتاق اوردیگر بہت سے احباب شریک تھے ۔اِس اجلاس کا بنیادی مقصد بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کی نام نہاد جنگی جرائم ٹربیونلز کے ذریعے وحشت وبربریت سے بھرپور کارروائیوں سے قوم کو آگاہ کرنا اور مِل بیٹھ کر اِس کے سدّ ِ باب کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا تھا ۔نظامت محترم بھائی رؤف طاہر کے ذمہ تھی اور افتتاہی کلمات محترم الطاف حسن قریشی نے ادا کیے۔
یہ موضوع ایسا خونچکاں کہ جس سے آج بھی لہو رِس رہا ہے ، خون کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ ساڑھے چار عشرے گزر چکے لیکن سانحہ ”سکوتِ ڈھاکہ” وقت کی دھول میں گُم نہ ہوسکا ۔مقررین کے جذبات عروج پر تھے اور سامعین کے بھی ۔سچ تویہی ہے کہ قریشی صاحب نے ایک دفعہ پھرہمارے زخموں کو کریدنے کی کوشش کی ،لیکن وہ مندمل ہوئے ہی کب تھے جو کریدنے کی نوبت آتی۔ جب وہ افتتاہی کلمات میں قِصّۂ درد سنارہے تھے تومجھے وہ وقت یادآگیا جب پنجاب یونیورسٹی کے طلباء وطالبات یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں جمع تھے ،ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ،پھر شاعر کی دردبھری پُکار اُٹھی
پھول لے کر گیا ، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
تب ہال میں بیٹھے ہر نوجوان کی آنکھ اشکبار ہوئی ،لیکن اب تونسلِ نَوکو شاید اتنا بھی پتہ نہ ہوکہ 16 دسمبر کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان کی ٹھنڈی دھوپ میں ہماری عظمتوں کے تمغے کیسے نوچے گئے ،ملک دولخت کیوں ہوا اورمجرم کون تھا؟۔ میجر جنرل ریٹائرڈ محمد جاوید نے تویہ کہہ دیاکہ یہ شیخ مجیب الرحمٰن کی خباثت ،یحیٰی خاں کی حماقت اور ذوالفقار علی بھٹو کی شرارت کا نتیجہ تھا لیکن بات اتنی مختصر تو نہیں۔ پاکستان کو دو لخت کرنے کے منصوبے توتشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی بننے شروع ہوگئے تھے اور پھر ہندولالے کی سازش کامیاب ہوئی ۔نریندرمودی نے توپچھلے سال بنگلہ دیش کے دَورے کے موقعے پر اِس کانہ صرف برملااقرار کیابلکہ احساسِ تفاتر کے ساتھ اُس کی باچھیںبھی کھِلی جارہی تھیں۔اُدھرہم ہیں کہ تحائف کے تبادلوںمیں مصروف اورامن کی آشاکا ڈھول گلے میںلٹکا کربجاتے ہی چلے جارہے ہیں۔قریشی صاحب نے اچھاکیا جونسلِ نَوکو سمجھانے اورحکمرانوں کوشرم دلانے کے لیے یہ سمینار منعقدکیا ۔ماحول جذباتی تھا جس میں مقررین کا”فوکس ” حسینہ واجدکی وحشتوںکے سدّ ِ باب کالائحہ عمل تیارکرنے کی بجائے ”سقوطِ ڈھاکہ” ہی رہا۔بہرحال زخم توہَرے ہوئے ،ہندولالے کی خباثتوں کا پتہ توچلا ۔ہوسکتاہے کہ قریشی صاحب کی اِن کاوشوںکا ثمر ،کبھی نہ کبھی ، کہیںنہ کہیںمِل ہی جائے۔
اجلاس میں محترم جاوید ہاشمی کا خطاب جذبات سے لبریز تھا ۔وہ کہہ رہے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن تو ”را” کا ایجنٹ تھا لیکن بنگلہ دیشی عوام کی غالب اکثریت آج بھی پاکستان سے محبت کرتی ہے۔حکمرانوں کو چاہیے کہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر جائے ۔مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ حکومت عالمی برادری کے سامنے بنگلہ دیش کے مظالم پیش کرے ۔بجا ،سوال مگریہ کہ عالمی عدالت میں پہلے کسی کا بھلا ہواہے جو اب ہوگا؟۔ بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے میں جو کردار اداکیا اورجس کااُن کے موجودہ وزیرِاعظم نریندرمودی نے ہی نہیں ،اندراگاندھی نے بھی یہ کہتے ہوئے بَرملا اقرارکیا کہ ”ہم نے دوقومی نظریے کوخلیجِ بنگال میںدفن کردیا”۔ تب بھی اقوامِ عالم کوشرم نہ آئی اورنہ اب آئے گی ۔محترم لیاقت بلوچ نے کہاکہ اِس مسٔلے پر سینٹ اور قومی اسمبلی میںبات ہونی چاہیے۔ ہم کہتے ہیںکہ بھائی ! سینٹ اورقومی اسمبلی تواپنی کرپشن چھپانے کے لیے نِت نئے طریقے ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔
اُس کے پاس بھلا اتنی فرصت کہاں۔ احمر بلال صوفی نے فرمایا کہ بنگلہ دیش میں قائم کرائم ٹریبونلز کو انٹرنیشنل ٹریبونلز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اُنہیں کسی بھی عالمی ادارۂ انصاف نے قبول نہیں کیا ۔سچ تویہی کہ کوئی عالمی ادارۂ انصاف قبول کرے یانہ کرے ،اب تواِس دَورِجدید میں صرف جنگل کاہی قانون چلتاہے اورجرمِ ضعیفی کی سزاتو مرگِ مفاجات ہی ہے ۔دُکھ ہے توصرف اتناکہ ایٹمی پاکستان کے حکمران بھی کسی اَن دیکھے ، اَنجانے ضعف میں مبتلاء ہوکر سُکڑے سِمٹے بیٹھے ہیں ۔کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی اُن میں ہمت ہے نہ سَکت ۔شمشاداحمد خاں نے کہا کہ بھارت اپنے ”را” کے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف مکمل جنگ کااعلان کرچکا ۔اب ہمارے حکمرانوںکو بھی مودی کی محبت کے سحر سے نکل کر قوم کودشمن کے خلاف متحدکرنا چاہیے ۔عرض ہے کہ ہم توعشروں سے ”را” کے ذریعے بھارتی ریشہ دوانیوں کا سُنتے چلے آرہے ہیں لیکن کسی بھی حکمران نے پہلے کبھی اِس کا سدّ ِ باب کرنے کی کوشش کی نہ موجودہ حکمرانوںسے اِس کی توقع ۔”را” کاحاضرسروس آفیسر کلبھوشن یادیو گرفتار ہو چکا ،اُس نے اپنی خباثتوںکا اقراربھی کرلیا لیکن ہوگا کیا؟۔ کچھ دنوں تک شوراُٹھے گا، پھرحکمران بھی کلبھوشن یادیو کوبھول جائیں گے اور قوم بھی۔
ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کا مقالہ پُر مغز بھی تھا اور چشم کُشا بھی لیکن ہمیں اب حسابی کتابی باتیں چھوڑ کرمیدانِ عمل میںآنا ہوگاکہ اِسی میںفلاح کی راہ نکلتی ہے ۔سمینارکے آخرمیں اعلامیہ جاری کیا گیا جس میںطے پایاکہ پاکستانی شہریوں کی طرف سے ایک یادداشت تیارکی جائے گی جس میں بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف اقدامات ختم کرنے کامطالبہ کیا جائے گااور پاکستان کی نمایاں سیاسی ، سماجی شخصیات اور دانشوروں پر مشتمل ایک وفداو آئی سی ،یو این او ،بنگلہ دیش ،امریکہ اور مسلم ممالک کے سفیروںسے مِل کر انہیں یہ میمورینڈم دے گاتاکہ بنگلہ دیش میں جاری پھانسیوں کے عمل کو روکا جاسکے ۔ہم محترم الطاف حسن قریشی کی اِن کوششوں اور کاوشوں کو سلام پیش کرتے ہوئے دُعاگو ہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامران ہوں کہ حکمرانوں سے تو ہم بہر حال مایوس ہیں۔
تحریر: پروفیسررفعت مظہر