بغلان: طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے شمالی صوبے بغلان کی پولیس کے صدر دفتر پر تیرہ سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا ہے۔ اس حملے میں تیس سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہیں جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ شمالی صوبے بغلان کی پولیس کے ہیڈ کوارٹرز صوبائی دارالحکومت پُل خمری میں واقع ہیں۔
طالبان نے اپنے حملے کی ابتدا پولیس کی عمارت کے گیٹ پر باردو سے لدی گاڑی کے حملے سے کی۔ حملے کے فوری بعد عسکریت پسندوں نے عمارت پر فائرنگ شروع کر دی۔ خودکش حملے کے بعد پولیس اہلکاروں نے جوابی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا۔ بغلان صوبے کی حکومت کے ترجمان محمود حقمل نے پولیس ہیڈکوارٹرز پر حملے کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ حملہ اتوار پانچ مئی کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کے اس حملے میں کم از کم تیرہ سکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں۔ ان ہلاک شدگان کے علاوہ عام شہریوں سمیت چالیس سے زائد افراد زخمی ہیں۔ ہسپتال پہنچائے گئے زخمیوں میں تیس کا تعلق پولیس سے بتایا گیا ہے۔ بغلان صوبے کے انتظامی و طبی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور اس باعث ہلاکتوں میں اضافہ ممکن ہے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بغلان کی صوبائی کونسل کے ایک رکن کے مطابق جوابی کارروائی میں کم از کم تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بقیہ حملہ آور پولیس کے گھیرے میں ہیں اور اُن کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔شمالی صوبے بغلان میں امریکا اور جرمن فوجی بھی متعین ہیں ۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز پیر چھ مئی سے ہو رہا ہے اور جمعہ تین مئی کو ختم ہونے والے لویہ جرگا کے اجلاس میں طالبان کے ساتھ جنگ بندی کی قرارداد کو منظور کیا گیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے دو روز قبل روزوں کے مہینے میں طالبان کو جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔ بظاہر ایسا خیال کیا گیا ہے کہ افغان طالبان نے جنگ بندی کا جواب شمالی صوبے میں ایک بڑے حملے سے دیا ہے۔ طالبان نے اشرف غنی کی جنگ بندی کی پیشکش کے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ رمضان کے مہینے میں حملے جاری رکھے جائیں گے کیونکہ اس مقدس ماہ میں جہادی سرگرمیوں کا اجر و ثواب بقیہ مہینوں سے کہیں زیاد ہے۔