اسلام آباد(یس اردو نیوز)افغان طالبان نے ايک مرتبہ پھر عالمی برادری پر واضح کيا ہے کہ بين الافغان امن مذاکرات کا آغاز ان کے پانچ ہزار قيدیوں کی رہائی سے مشروط ہے۔ طالبان کا يہ بيان ايک ايسے وقت ميں سامنے آيا ہے جب امريکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خليل زاد امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پھر سے سرگرم ہيں۔ خليل زاد نے قطر ميں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد اتوار کو پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد وہ کابل روانہ ہوگئے۔
امريکہ کے ساتھ امن مذاکرات ميں طالبان کی ٹيم کی سربراہی کرنے والے طالبان رہنما شير محمد عباس استنکزئی نے وائس آف امريکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زلمے خليل زاد کا خطے کے بار بار دورہ کرنے کا مقصد بین الافغان مذاکرات کے جلد آغاز کی کوشش ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قيادت نے قيديوں کے تبادلے کے دوران ہی بين الافغان مذاکرات کی اجازت دے دی ہے اور اس سلسلے ميں افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جرمنی يا پھر ناروے کے دارالحکومت اوسلو ميں ہوں گے۔ ليکن پیر کو وی او اے کے ساتھ گفتگو میں شير عباس استنکزئی نے ان اطلاعات کی تردید کی۔
ان کے مطابق ابھی تک افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے کسی حتمی تاريخ يا جگہ کے انتخاب پر بات چيت نہيں ہوئی ہے۔ زلمے خليل زاد کے حاليہ دورے سے متعلق دوحہ ميں طالبان کے سياسی ترجمان محمد سہيل شاہين نے بتايا ہے کہ طالبان رہنماؤں نے مُلا عبد الغنی برادر کی سربراہی ميں زلمے خليل زاد، جنرل ملر اور ان کی ٹيم سے قيديوں کی جلد رہائی اور بين الافغان مذاکرات کے آغاز پر بات چيت کی۔ دورہ پاکستان کے دوران امريکی نمائندہ خصوصی نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاويد باجوہ سے بھی ملاقات کی۔
پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ ‘آئی ايس پی آر’ کے مطابق ملاقات ميں باہمی امور، مجموعی علاقائی صورتِ حال بشمول افغان مہاجرين، افغان سرحدی انتظام اور افغان مفاہمتی عمل پر بات چيت ہوئی۔ ‘آئی ایس پی آر’ کے مطابق ملاقات کے دوران اس ضمن ميں اٹھائے گئے اقدامات پر تبادلۂ خیال کيا گيا اور طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے کام جاری رکھنے پر اتفاق کيا گيا۔
افغانستان کا مبہم سیاسی مستقبل
افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے افغانستان کی ‘پژواک نيوز’ ايجنسی کے مدير مدثر علی شاہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر ميں افغانستان کی سياسی صورتِ حال واضح نہيں ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس ميں تبديلياں ہو رہی ہيں۔ وائس آف امريکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر علی شاہ نے بتايا کہ افغان صدر اشرف غنی متعدد بار واضح کر چکے ہيں کہ ان کا امريکہ سے ایسا کوئی معاہدہ نہيں ہوا ہے جس کے تحت وہ پانچ ہزار طالبان قيدی رہا کرنے کے پابند ہوں اور نہ ہی امريکہ و طالبان کے درميان ہونے والے امن معاہدے کی تمام شرائط پر عمل کرنا ان کے لیے ضروری ہے۔ مدثر علی شاہ کے مطابق افغان صدر کا يہ بيانيہ کافی حد تک درست بھی ہے کیوں کہ دوحہ معاہدے ميں افغان حکومت کسی بھی طور پر براہِ راست شريک نہيں تھی۔ ليکن دلچسپ امر يہ ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے افغان حکومت کو بڑی حد تک ذمہ دار ٹھیرايا جا رہا ہے۔ ياد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں امريکہ اور طالبان کے درميان رواں برس 29 فروری کو ہونے والے معاہدے ميں طے پايا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قيدی رہا کرے گی جب کہ اس کے بدلے میں طالبان افغان حکومت کے ايک ہزار قيدی رہا کريں گے۔
اگرچہ اس حوالے سے مثبت پيش رفت جاری ہے لیکن ابھی تک دونوں فريق مقررہ تعداد میں قيدی رہا نہيں کر پائے ہيں۔ اب تک افغان حکومت نے طالبان کے 2700 سے زائد قيدی رہا کیے ہيں جس کے جواب ميں طالبان نے افغان حکومت کے 450 سے زائد قيدی رہا کیے۔ ماہرين کے مطابق مکمل قيديوں کی رہائی ميں ابھی بھی کچھ وقت لگے گا۔ مدثر علی شاہ کے بقول ايسا لگتا ہے کہ امريکہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرتے ہوئے جلد بازی کا مظاہرہ کيا اور موجودہ صورتِ حال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے مطابق نہ تو افغان حکومت ايک ساتھ تمام طالبان قيدی رہا کر رہی ہے اور نہ طالبان اپنی پرتشدد کارروائیوں ميں کمی لانے پر آمادہ ہيں۔
امن معاہدے کی امید اور خانہ جنگی کے خدشات
امريکی فوج کے مطابق جمعرات اور جمعے کو امريکی افواج نے قندھار اور فراہ ميں طالبان کے ٹھکانوں کو اس وقت نشانہ بنايا جب طالبان افغان سیکیورٹی ادارے کے اہلکاروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مدثر علی شاہ کے مطابق طالبان ٹھکانوں پر امريکی حملے اس بات کا ثبوت ہيں کہ خود امريکی قيادت بھی معاہدے کے مستقبل کے بارے میں مايوسی کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات اعتماد کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہيں جب کہ کبھی کبھار اس طرح کے اقدامات سے مہينوں میں ہونے والی پيش رفت بہت پیچھے چلی جاتی ہے۔
ننگرہار صوبے سے مسلسل تيسری بار منتخب ہونے والے افغان ممبر پارليمنٹ مير وائس ياسينی کے مطابق افغانستان کے سياسی مستقبل کا حل بات چيت کے ذريعے ہی ممکن ہے۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اس بارے ميں مذاکرات کے لیے تيار ہے۔ یاسینی کے بقول خطے ميں کچھ شرپسند عناصر امن کے لیے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کرسکتے ہیں ليکن اگر طالبان اور حکومت نيک نيتی اور سنجيدگی کا مظاہرہ کريں تو وہ اميد کرتے ہيں کہ افغانستان ميں امن کا قيام زيادہ مشکل نہيں ہے۔ انہوں نے خبردار کيا کہ اگر بات چيت کامياب نہ ہوئی تو اس کے دور رس اثرات نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کو تباہی کی لپيٹ ميں لے لیں گے۔ پژواک کے مدير مدثر شاہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کو تينوں فريقين امريکہ، افغان حکومت اور طالبان قيادت کو مذاکرات کے ذريعے حل کرنا ہوگا۔ تاہم انہوں نے واضح کيا کہ افغانستان اب کافی بدل گيا ہے اور گزشتہ دور کی طالبان پاليسياں افغان عوام من و عن قبول نہيں کریں گے۔
مدثر شاہ نے کہا کہ افغان نوجوان نسل کافی بدل گئی ہے اور طالبان بھی يہ حقيقت جان گئے ہيں۔ اسی لیے ان کی خواتين کی سياست، تعليم اور طب کے شعبوں سے متعلق سوچ ميں نماياں تبديلی نظر آ رہی ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کو 19 سال ہو گئے ہيں ليکن اب بھی افغانستان کے ديہی علاقوں ميں لوگ انصاف کے تيز حصول کے لیے طالبان سے رابطہ کرتے ہيں۔ جس کا مطلب ہے کہ ديہی علاقوں ميں لوگ طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہيں۔ مدثر شاہ کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کا جمہوريت کے ساتھ بہت لگاؤ ہے ليکن بدقسمتی سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انہيں بھی ان کی اُمنگوں کی ترجمانی کرنے والی جمہوريت نہيں ملی اور افغان حکومت عوام کو روزگار کے مواقع، سيکیورٹی اور سہوليات دينے ميں ناکام رہی۔