تحریر: طاہر یاسین طاہر
عالمی سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل دوحہ میں دہشت گرد طالبان کے ذریعے نئے کھیل کی بنیاد ڈال چکے ہیں۔ سوال بڑا سادہ ہے، طالبان جنھیں اب افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے اگر وہ دہشت گرد نہیں تھے تو ان پر حملہ کیوں کیا گیا؟ طالبان جنھیں اب افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے اگر وہ نائن الیون والے سازشی کردار کے میزبان نہیں تھے تو پھر ان پر بمباری کیوں کی گئی؟ طالبان کو انتہا پسندی کی طرف کس نے دھکیلا؟ کس نے اپنے مفادات کو مذہب کی عینک سے دیکھ کر دور و نزدیک کا اندازہ لگایا؟ کیا نائن الیون تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نقطہ ء آغاز تھا؟ یا پھر روسی فوج کو پرے دھکیلنے والے کھیل کی ابتدا؟یا پھر اس خطے میں زہر آلود انتہا پسندی کا نقطہ آغاز تھا۔ ماضی میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں۔امریکہ کو کرائے کے قاتل درکار تھے۔ پاکستان میں اسے جنرل ضیا الحق جیسا اسلام پرست مل گیا، جس کا سارا زور اسلام کی ظواہر پرستی پر تھا۔ اس کے نزدیک حدود کا مقدمہ ہی اسلام کا اصل مسئلہ تھا، وہ سمجھتا تھا کہ کچھ خاص مکاتب فکر کو کافر قرار دے کر ان سے جزیہ لے لیا جائے تو یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی، وہ یہ بھی سمجھنے لگابینکوں کے ذرریعے ہی لی جانے والی اصل زکوةٰ ہے۔اسے کسی نے بتا دیا کہ پٹھانوں کو آج تک کسی نے شکست نہیں دی، جنرل ضیا کو سنایا گیا کہ کہسار باقی افغان باقی رہے نام اللہ کا، کہسار تو باقی ہیں مگر افغانوں کی ایسی نسل کشی ہوئی کہ تاریخ چنگیز خان کو یاد کیے بغیر نہیں رہ پاتی۔
بارہا لکھا،پھر عرض ہے کہ ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تعلقات جذبات کے بجائے مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، چین آج اگر ہمارا دوست ہے تو اس کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ چین ہمارے ساتھ مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرے گا، مفادات ہیں حضور مفادات، جنھوں نے ہمیں اور چین کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔اگرچہ چین کی پرائیویٹ کمپنیاں پاکستان کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کارنامے سر انجام دے رہی ہیں مگر یہ تعلقات پیداواری ہیں۔ان تعلقات کا ہماری جہادی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں،ورنہ تو چین کو بھی ہماری جہادی سر گرمیوں سے شدید تحفظات ہیں۔بھارت اور چین کا تنائو ہی ہمیں اور چین کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔خدا کرے بھارت اور چین یونہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں،تا کہ ہماری اور چین کی دوستی کا بھرم بھی قائم رہے۔ ملکوں کی دوستیاں اگر جذباتینت کی بنیاد پہ ہوا کریں تو دنیا کاسامراجی نظام پیداواری رشتوں کے بجائے جذباتی تعلقات کامرہون ہو کر رہ جائے۔
کوئی دو برس ادھر کی بات ہے، ممکن ہے ایک آدھ برس اوپر ہو۔ امریکہ اور طالبان ، جنھیں اب افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے نے امریکہ و یورپ سے مذاکرات کی خاطر،قطر میں ایک ملاقاتی دفتر کھولا۔ایجنڈا کیا تھا؟وہ طالبان جنھیں دنیا کی سب سے بڑی معاشی و عسکری طاقت دہشت گرد قرار دے چکی تھی،ان سے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے؟ مگر دنیا آنکھ رکھتی ہے اور اس کی آنکھ میں دھول جھونکنا بڑا ضروری ہے۔کئی ایک باتیں طے ہو گئی تھیں،پاکستان کا رول ہمیشہ کی طرح اس حوالے سے جاندار تھا۔طالبان دہشت گردجنھیں آج کل افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے، اپنی بات پر اڑ گئے۔کہنے لگے ہم اپنے دفتر کے اوپر اپنا اسلامی امارات کا جھنڈا لہرائیں گے۔ امریکہ ،پاکستان ،قطر اور خطے کی دوسری فیصلہ ساز قوتوں کو افغانستان کے دہشت گرد طالبان کا یہ رویہ پسند نہیں آیا،دراصل اس دفتر کا مقصد افغانستان سے نیٹو فورسز کو محفوظ راستہ دینے کے علاوہ آئندہ بننے والی افغان حکومت میں اقوام متحدہ کی طرف سے قرار دئے گئے دہشت گرد طالبان کو مناسب نمائندگی بھی دینا تھی۔
بات جھنڈے پہ اڑ گئی اور پھر دفتر بند اور طالبان افغانستان میں۔ اخبارات میں البتہ ایسی خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہیں کہ امریکہ اور افغانی طالبان کے درمیان کوئی نہ کوئی مذاکراتی عمل جاری ہے۔ اسی دوران مولانا سمیح الحق صاحبکے بیانات بھی نظر نواز ہوتے رہے کہ افغان طالبان ہمارے بچے ہیں۔ سانحہ پشاور سے پہلے مولانا فضل الرحمن، مولوی عبدالعزیز الال مسجد والے، مولانا سمیح الحق، مولانا فضل الرحمن خلیل اور ان کے فکری حواری پاکستانی طالبان کے حوالے سے بھی ایسی ہی ہمدردی رکھتے تھے، اب بھی رکھتے ہیں۔سانحہ پشاور مگر ان عناصر کو پچھلے قدموں پہ لے گیا۔لیکن سچ یہی ہے کہ اکیسویں ترمیم کے خلاف ان کا اگلا ہوا زہر پاکستانی طالبان کے ساتھ ان کی اسی ہمدردی کا مظہر ہے،جس ہمدردی کا اظہار یہ لوگ افغانی طالبان کے ساتھ کرتے ہیں۔
داعش ایک نئی وحشت ہے، کسی دوسری نشست میں اس کی اٹھان اور اس کے مقاصد پر بات کروں گا، اگرچہ داعش کے ہمدرد میری جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں مگر یہ ان کے بس میں نہیں کہ مجھے حق اور سچ بات کہنے سے روک سکیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق”افغان حکومت سے امن مذاکرات کے لیے ابتدائی اقدام کے طور پر افغان طالبان نے( جو مصدقہ دہشت گرد ہیں انھوں )نے قطر کے شہر دوحہ میں اپنا دفتر دوبارہ کھول لیا ہے۔ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر دونوں فریقین کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ایجنڈا طے کیا جا رہا ہے۔حکام نے توقع ظاہر کی ہے کہ افغان دہشت گرد طالبان کے ساتھ امریکہ کے سٹریٹجک مذاکرات رواں برس مارچ میں شروع ہوں گے۔لاریب دوحہ میں طالبان کا دفتر بحال ہو گیا ہے اور اب پاکستان کی مدد سے ابتدائی ملاقاتوں میں قواعد و ضوابط طے کیے جا رہے ہیں۔ذرائع نے یہ بھی تصدیق کی کہاافغان طالبان اور چینی حکام میں مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں،اور چینی حکام کی جانب سے بیجنگ میں طالبان سے ہونے والے مذاکرات سے پاکستان کو بھی آگاہ رکھا گیا ہے۔یاد رہے کہ افغان طالبان ( جنھیں اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہے )کے دوحہ میں موجود سیاسی نمائندے قاری دین محمد نے گذشتہ سال نومبر میںبیجنگ میں افغانستان کے حالات کے حوالے سے مذاکرات میں شرکت کی تھی اور رواں ہفتے ان کی دوحہ میں ایک امریکی سفارتکار سے ملاقات بھی متوقع ہے۔یاد رہے کہ افغانستان کے طالبان اور مریکی حکاممذکرات کی تردید کر رہے ہیں
مذاکرات کی تردید و تائید خطے میں کسی نئی کروٹ کا پتا دیتی ہے، داعش اس کروٹ کا مرکزی کردار ہے مگر اس پر اگلی نشست میں بات کی کوشش کروں گا۔ ابھی تو یہی سوال کھائے جا رہا ہے کہ وہ افغانی طالبان جنھوں نے اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد کو پناہ دے رکھی تھی وہ اچانک امن پسند کیسے ہو گئے کہ امریکہ ان سے مذاکرات کرنے کو بے چین ہے۔کیا ان کی فکر میں تبدیلی آگئی ہے اور اب وہ نہیں چاہتے کہ دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرائیں؟ ایسا جھنڈا جوعرب روایات کے ساتھ ساتھ افغان قبائلی روایات کا بھی امین ہو۔امریکہبہر حال خطے میں اپنے سامراجی مفادات کے لیے داعش کی سرکوبی کو آئے گا۔ داعش اب امریکہ کا نیا عسکری اتحادی ہے۔ دوحہ اس ایجنڈے کا مرکزی سکرٹریٹ ہوگا۔پاکستانی طالبان،لشکر جھنگوی اور اس کے فکری حواری اس سارے کھیل کے چنیدہ چنیدہ کھلاڑی ہوں گے۔نواب شیفتہ یاد آتے ہیں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
تحریر: طاہر یاسین طاہر