پشاور (جیوڈیسک) مہمندایجنسی جوایک زمانے میں تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا کو شرپسندوں سے مکمل طور پر پاک کر دیا گیا ہے اور علاقے میں اب ایک بھی نوگوایریا نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے 4 سال بعد 1951 میں معرض وجودمیں آنے والی مہمندایجنسی فاٹا کے شمالی حصے میں ہے 8 تحصیلوں اورتقریباً 6 لاکھ آبادی پرمشتمل اس ایجنسی کی سرحدیں افغانستان کے صوبہ کنڑ سے ملتی ہیں۔
ایف سی حکام اورپولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق 2008 میں ایجنسی میں شرپسندوں جن میں تحریک طالبان مہمند ایجنسی(ٹی ٹی ایم ) اوران کے دوسرے گروپوں کیخلاف بریخانہ ون اورٹوکے نام سے آپریشن شروع کیے گئے تویہ علاقہ مکمل طورپرنوگوایریابن گیاتھااورآئے روز شرپسند لوگوں کی نعشیں سڑکوں پر پھینکتے تھے۔
تاہم اب صورتحال یکسرتبدیل ہوگئی ہے اورافغاستان کے سرحدی مقام خاپخ تک پوراعلاقہ ایف سی اورپولیٹیکل انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔
دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں یہاں کے عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور 700 کے لگ بھگ افرادشہیدہوچکے ہیں جن میں70 بڑے قبائلی مشران اور ملک بھی شامل ہیں۔اب تک ایجنسی میں مجموعی طورپر 184 ایف سی،لیویز،خاصہ دارفورس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔