تحریر: محمد ریاض پرنس
ٹاک شو ایک ایسا پلیٹ فورم ہے جہاں پر ہر شخص کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تاکہ تمام موجودہ اشوز پر بات ہو سکے اور ان کے حل کے لئے کوئی تجویز دی جا سکے ۔مگر ہمارے ملک کے اندر جتنے بھی ٹی وی چینلز پر ٹاک شو چل رہے ہیں ۔ان میںصرف سیاستدانوں کو ہی مدعو کیاجاتا ہے۔ اگر یہ چینلز والے عام آدمی کو اپنے پروگرام میں بلائیں اور ان سیاستدانوں کے سامنے بیٹھا کر ان سے پوچھیں کہ آپ نے الیکشن کے بعد عوام کے لئے کیا کیا ہے۔ تو شاید کچھ بہتر ہو سکے ۔ مگر ہمارے ملک کے اندر ٹی وی چینلز پر کیا ہو رہا ہے ۔ ان پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے ہیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔ جو کہ پاکستان کے بہت ہی مقبول ٹی وی چینل کا شو تھا۔ اس شو میں چار پارٹیوں کے نمائندگان کو بلایا ہوا تھا۔ جن میں موجودہ حکمران جماعت کا ایک نمائندہ تھا۔ تحریک انصاف ،پاکستان عوامی تحریک،اور پپلز پارٹی کے نمائندے موجودتھے ۔ ان کا موضو ع گفتگو موجودہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے تھا۔ جو اس پروگرام کی اینکر پرسن تھی وہ ایک خاتون تھیں ۔ اس نے تمام نمائندوں کو اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا ۔ وہ اینکر پرسن جس نمائندے کو بھی بات کرنے کا موقع فراہم کرتیں ۔ وہ نمائندہ پہلے تو بڑے آرام کے ساتھ بات کرتا اورجیسے جیسے اس کی بات کرنے کاوقت ختم ہونے کو جاتا وہ اس قدر بھڑک اٹھتا کہ وہ موجودہ حکومت کے بارے میں وہ وہ باتیں کر جاتا کہ اینکر پرسن ان کی باتیں سن کر حیران پریشان ہو جاتی ۔اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کہیں یہ نمائندہ اپنے ساتھ بیٹھے موجودہ حکومتی نمائندے کو کھا نہ جائے۔اور ان کی گفتگوکرنے کا انداز اس قدر برا کہ وہ پتہ نہیں کیا کیا کہے جا رہا ہے۔
ان کی گفتگو میں کوئی لزت اور پیار نہیں دیکھائی دے گا ۔بلکہ ایسا محسوس ہو گا کہ یہ پاکستان کے نمائندے نہیں ۔ایسے محسوس ہو گا کہ جیسے ایک نمائندہ بھارت کا اور ایک پاکستان کا ہوتا ہے کہ نہ جانے وہ کیا کیاکہہ جاتے ہیں۔اور ان میں جنگ چل رہی ہوتی ہے ۔اور ایسی جنگ کہ جس کا کوئی رزلٹ نہ ملے ۔اور اگر یہ نمائندے یہ سوچ کر بیٹھیں کہ ہم نے جس مسلے پر بات کرنی ہے۔سب مل کر اس مسلے کے حل کیلئے تجاویز دیں سکیں ۔نہ کہ وہاں بیٹھ کر اپنی ہار جیت کا بدلہ لیں ۔اگر ہم نے پروگرموں میں بیٹھ کر بڑھکیں مارنی ہیںتو ایسے نمائندوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے ہماری نوجوان نسل ان کو دیکھ کر اور ان کے لہجے اور گفتگو کو سن کر کیا سوچے گی اور ان سے کیا سبق حاصل کریگی ۔یہ نمائندے بھول جاتے ہیں کہ ہم کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور ساری دنیا کو ہم اپنا سب کچھ دیکھا رہے ہیں کہ ہم ایسے ہیں ۔
قارئین ! میری بات سے آپ اتفاق کریں گے کہ اب یہ سلسلہ ہی چل پڑا ہے ۔جو بھی نیا چینلز ُان ہوتا ہے وہ ٹاک شو کے ذریعے اپنی رینکنگ بڑھانے کے لئے ایسے لوگوں کو دنیا کے سامنے تماشہ بناتے ہیں۔اب ہمارے ملک کے اندر کوئی ایسا چینلز نہیں جس پر ٹاک شو نہ ہو رہا ہو۔پیمرا کو ایسے ٹی وی چینلز پر پابندی لگانی چاہئے ۔ کیونکہ یہ لوگ براہ راست عوام کے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں ۔اور اتنی گری ہوئی باتیں کرتے ہیں کہ ٹی وی بند کرنا پڑتا ہے ۔کبھی سوچا نہ تھا کہ ہمارے نمائندے اتنی گندی گندی باتیں بھی کریں گے ایک دوسرے کے بارے میں ۔ اگر یہ لوگ ایسے ہیں تو ہم کیوں ان کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور عوام کو اپنا آپ دیکھائیں ۔ کہ آپ کتنے اچھے ہیں ۔اور اس کے بعد عوام آپ کو کس انداز سے نوازے گئی ۔ یہی بات ہے کہ ہم بات تو کر جاتے ہیں مگر اپنے گریباں میں نہیں جھانکتے۔
اگر بولنے سے پہلے ہم ذرا سوچ لیں کہ اس بات کا عوام مطلب کیا نکالے گئی تو شاید ہم میں کوئی بہتری آجائے ۔لہذا پروگراموں میں ایسے لوگوں کو مدعو کیا جائے جو اس قابل ہوں کہ جس مسلے پر بات چل رہی ہو اس کے حل لئے کوئی تجاویز دیں سکیں ۔ نہ کہ حالات ایسے پیدا کردیںکہ ہاتھ گریبانوں تک پہچ جائیں ۔اگر ایسے لوگوں کو پروگراموں میں بلایا جائے گا جس سے پاکستان کی عزت خاک میں ملے گی اور ہم اپنے ہی ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر برا بھلا کہیں گے تو پھر حالات کبھی بھی سدھریں گے نہیں بلکہ مزید خراب ہوں گے ۔ اور اگر ان ٹی وی چینلز والوں نے ان لوگوں کو نہ بدلہ تو پھر یہ عوام پیمر ا سے ایسے پروگرام بند کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔جن لوگوں کو آپ اپنے پروگراموں کی زینت بناتے ہیں وہ اس قابل نہیں ہوتے ۔ وہ توایک دوسرے کا تماشہ دیکھنے کے لئے کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں، ان کو پاکستان اور پاکستانی عوام سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔اس لئے وہ تو ہر وقت پروپگنڈا کی سیاست کرنے پر لگے ہوتے ہیں۔
میں ان تمام ٹی وی چینلز کے اینکر پرسن اور پروڈیوسر ز حضرات سے یہ ضرور کہوں گہ کہ خدارا ایسے لوگوں کو مت اپنے پروگراموںکا حصہ بنائو جس سے پاکستان کی عزت پر فرق پڑے ۔جب ان پروگرامز کو دنیا دیکھتی ہے تو وہ اچھے الفاظ میں ان کو یاد نہیں کرتی بلکہ ان کی قدروقیمت میں کمی آتی ہے۔ اور پوری دنیا ہمارے ان نمائندوں کو دیکھ کر واہ واہ کر رہی ہوتی ہے کہ یہ وہ نمائندے ہیں جنھوں نے کل کو پاکستان کے حکمران بننا ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کو مدعو کرو، جو پاکستان کی فلاح اور ترقی کے لئے اپنی اپنی تجاویز پیش کریں جن سے پاکستان کے مسائل حل ہو سکیں ۔اور جو تجاویز ملیں ان کو متفقہ رائے سے منظور کرکے موجودہ حکمران جماعت کے نمائندے کے ذریعے اس پر عمل کروایا جائے ۔
تحریر: محمد ریاض پرنس
03456975786