تحریر: ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
سانحہ پشاور میں جس طریقے سے دہشتگرد بغیر کسی رکاوٹ کے بچوں کے سکول میں داخل ہو ئے اور وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی اس پر ہر پاکستانی کا دل ملال اور آنکھیں اشک بار ہیں اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک کے تمام ادارے اور بالخصوص قانون نافظ کرنے والے ادارے اپنا کردار صیحح طور پر ادا نہیں کر پا رہے۔ سانحہ کے چند ماہ بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ پھر اسی طرح کا کوئی اور واقعہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔ لہذا ہر محکمے کو اپنا کام ایمانداری اور بھر پور طریقے سے سر انجام دینا چاہیے۔
اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو زیادہ تر سانحات محکمہ پولیس کی غفلت کی وجہ سے رو پذیر ہوتے ہیں ۔ جب تک ہم پولیس کو اتنا با اختیار نہیں بنائیگے کہ وہ عام چکینگ کے دوران کسی فوجی گاڑی ، فوجی افسران یا دیگر قانون نافظ کرنے والے محکموں کے اہلکاروں کی صیحح شناخت کریں تب تک جرائم پیشہ افراد پر گرفت مظبوط نہیں ہو سکتی۔ عام مشاہدے میں یہ ا یا ہے کہ اگر کسی نے فوج یا کسی اور ادارے کی وردی پہن رکھی ہے تو چیکنگ پر موجود عملہ ان کو روکنے کا اشارہ تو درکنار الٹا سیلوٹ مارکر جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔
یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ اکثر چیک پوسٹوں پر اگر کسی غیر ملکی کے پاس سفری کاغذات نہ بھی ہوں تووہ بھی مک مکہ کر کے گزر جاتا ہے یہ سلسلہ ملک و قوم کیلئے خطرے کا باعث ہے ۔ اگر خیبر پختون خواہ کے حوالہ سے بات کی جائے تو پشاور اور اس کے گرد نواح کے قبائلی علاقوں میں جعلی شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، تعلیمی ڈگریاں ، ادویات اور ملاوٹی اشیاء کا کام زور شور سے جاری ہے ۔ اسی طرح پشاور کے شعبہ بازار میں گاڑی ٹمپرنگ کے ساتھ ہر قسم کی چوری شدہ گاڑیوں کے پرزے، نان کسٹم گاڑیوں کا سامان اور سپیئر پارٹس کا کاروبار عرصہ دراز سے ہو رہا ہے ۔ محکمہ کسٹم ، اینٹی کرپشن ، پولیس اور نیب وغیرہ کے تمام محکمے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
اس غیر قانونی دھندے سے تمام ضرورت مند مستفید ہو رہے ہیں ۔ عرصہ داراز سے کسی ادارے کو بھی اس غیر قانونی کاروبار کو بند کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ۔ اس غیر قانونی دھندے سے حاصل شدہ رقم یا تو دہشتگردی میں استعمال ہوتی ہے یا پھر بڑے بڑے پلازے تعمیر ہو رہے ہیں ۔ا سی طرح پشاور کے ملحقہ قبائلی علاقہ جات سے جدید اسلحہ ، چرس ، پوڈراور باقی منشیات ملک کے دوسرے حصوں کو بھی قانون نافظ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے سے ترسیل ہو رہی ہے ۔ جس سے ملک میں بدامنی اور دہشتگردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ دہشتگردی کے آلہ کار بن رہے ہیں ۔ جب تک اس دھندے کو روکا نہیں جائے گا خیبر پختون خواہ کو امن نصیب نہیں ہو گا۔
دہشتگردی کی دوسری بڑی وجہ وہ غیر قانونی پناہ گزین ہیں جن کا تعلق عرب ممالک ، چیچن ، ازبک، افغانستان اور دیگر جہادی گرو پوںسے ہیں۔ جو 1977 سے افغان جہاد کے نام سے پاکستان میں بغیر کسی قانونی دستاویز کے داخل ہوئے ۔اور جن کے ٹھکانے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی موجود ہیں۔ یہی لوگ دہشتگردی کے سرکردہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شہنشاہ ایران کی حکومت ختم ہونے پر تقریباً 20 لاکھ ایرانی باشندوں نے ہجرت کر کے پاکستان میں پناہ لی۔ اسی طرح غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 60 سے 70 لاکھ افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں قیام پذیر ہوئے۔
اسکے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے جسے مقامی لوگ کو چی کہتے ہیں انہوں نے بھی پشاور کے مضافات اور دیہاتوں کے علاوہ حیات آباد میں بھی رہائش اختیار کی۔ یہ کوچی زیادہ تر کپڑے اور دیگر مختلف قسم کی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور زیادہ تر باڑہ کی مارکیٹیں انہی لوگوں سے آباد ہیں۔ ان کو چیوں نے پاکستانی ڈومیسائل ،شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیے ہوے ہیں اور بڑے بڑے بنگلوں اور پلازوں کے مالک ہیں اور ان پر بھی ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
مطلب یہ کہ جتنے غیر ملکی باشندے اور پناہ گزین پاکستان میں آباد ہیں دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں نہیںہیں، جب تک ان تمام غیر ملکیوں کو پاکستان سے نکالنے کا بندوبست نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی بر قرار رہیگی اورروز بروز پاکستانی قوم اس طرح کے دلخراش اور لرزہ خیز سانحات کا سامنا کرتی رہے گی ۔ لہذا اب وقت آ گیا ہے کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور تمام غیر ملکی مہاجر ، پناہ گزین وغیرہ کو ان کی اولاد سمیت جو گزشتہ 35سال سے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں انکو بھی ملک سے نکال باہر کریں تا کہ پاکستانی قوم کے کندوں سے بوج ہلکا ہو اور ہمارے بے روز گار نوجوانوں کو روز گار کے موقعے ملیں اور ہمارے ملک عزیز کو دیر پا امن نصیب ہو۔
آخر میںتحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ تبدیلی اور انقلاب کے فضول نعرے چھوڑ دیں کیونکہ انقلاب نعروں اور دھرنوں سے نہیں آتے۔ حکومت اپنی توانائی صوبے میں غربت کے خاتمے، دہشتگردی، سمگلنگ، زخیرہ اندازی اور رشوت کی روک تھام کیلیئے موئژ قانون سازی پر صرف کرے۔ کیونکہ دو سال کے عرصہ میں پختونخوا میں کوئی تبدیلی کی فضا محسوس نہیں ہو رہی ہے اور پہلے کی طرح صوبے بھر میں دہشتگردی، ڈاکازنی، اغوا ء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم میںکوئی کمی نظر نہیں آئی۔ اگر مندرجہ بالا مسائل پہ قابو نہ پایا گیا تو بہت جلد تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے خلاف عوام خود انقلاب کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر امتیاز علی اعوان