لاہور (ویب ڈیسک) سب سے پہلے تومیں آپ سب کو گزری عید الضحیٰ کی دِلی مبارکباد دینا چاہوں گا، ہر سال کی طرح رواں برس ہزاروں پاکستانی ہم وطنوں نے بھی فریضہ حج ادا کیا، میرا یہ ماننا ہے کہ دنیا بھر کے مذہبی تہوار اپنے پس منظر میں کوئی نہ کوئی اعلیٰ اخلاقی پیغام ضرور رکھتے ہیں،
تحریک انصاف کے نامور رہنما ڈاکٹر رمیش کمار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم صدق دل سے امام صاحب کی باتوں پر غور کریں تو انہوں نے یہ الہامی پیغام عام کیا کہ مذہب کی حقیقی تصویر اعلیٰ اخلاق اور خلقِ خدا سے بہترین برتاؤ ہے، خداوند تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کسی مخلوق کا کوئی بھی نیک عمل ضائع نہیں جائے گا، خدا کا حکم ہے کہ ہمیشہ حق کا ساتھ دو اور ظالم کے خلاف جدوجہد کرو، مزید براں اپنے والدین، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کیساتھ اچھا سلوک کیا جائے، بالخصوص حکمرانوں کو اپنی رعایا کا خاص خیال رکھنا چاہیے، انہوں نے خبردار کیا کہ ناانصافی اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنا تباہی کی طرف لے جاتا ہے، ہمیں چاہیے کہ جھوٹ، بے ایمانی، تکبر اور دھوکہ دہی کا راستہ ترک کرکے معافی، انکساری اور درگزر جیسی اعلیٰ صفات اپنالیں۔ ویسے تو روایتی طور پر امام صاحب کا خطاب دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان عازمین حج کیلئے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جو حکمت و دانائی سے بھرپور درس دیا، وہ مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر رہتی دنیا تک تمام بنی نوع انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے، درحقیقت یہ زندگی گزارنے کے وہ بنیادی اصول ہیں
جنہیں جس انسان یا معاشرے نے اپنے آپ پر نافذ کردیا، اس پر خدا نے اپنی رحمت سے ہر میدان میں کامیابیاں ممکن بنا دیں۔ رواں برس عیدالضحیٰ کا مبارک تہوار ایسے موقع پر آیا ہے جب پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے ایک ایسی سیاسی جماعت کو منتخب کیا ہے جس نے پاکستانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام اور کرپشن کے خاتمے کیلئے بائیس سال انتھک جدوجہد کی ہے، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے وزیراعظم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونا بلاشبہ ایک عظیم کارنامہ ہے لیکن میری نظر میں اصل امتحان اب شروع ہوا ہے کہ عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں کیسے کامیاب ہوا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کا نیا پاکستان بنانے کا نعرہ عوام کے دل جیتنے میں موثر ثابت ہوا، انہوں نے لوگوں سے ایک ایسا نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا جہاں بانی پاکستان قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مدینہ کی فلاحی ریاست کو بطور رول ماڈل اپنا یا جائے۔ اس سلسلے میں ہمیں کسی صورت یہ پہلو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ
پاکستان مسلم اکثریت کا ملک ضرور ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا لیکن تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں جوگندرناتھ منڈل جیسے قائداعظم کے غیرمسلم ساتھیوں کا بھی اہم کردار ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں غیرمسلم ووٹ بینک35لاکھ کے لگ بھگ ہے جس نے میری نظر میں حالیہ قومی انتخابات میں تحریکِ انصاف کی کامیابی کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اب جبکہ عمران خان حکومت سازی میں کامیاب ہوچکے ہیں تو ریاست مدینہ کے وہ بنیادی خدوخال سمجھنا بہت ضروری ہے جنکی بدولت صدیوں سے جنگ و جدل کا شکار پورا خطہ امن کا گہوارہ بن گیا۔ میری معلومات کے مطابق انسانی تاریخ کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ میں کمزور باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری قرار دیا گیا، پیغمبراسلام ﷺ نے سود سے پاک قرضِ حسنہ دینے کا رواج قائم کیا، تاریخ کا پہلا تحریری حالت میں امن کا معاہدہ میثاقِ مدینہ کیا گیا جس میں تمام فریقین کو اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے مکمل شہری حقوق فراہم کیے گئے، ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے مدینہ کو ایک اکائی قرار دیا گیا جسکا دفاع کرنا ہر مسلم اور غیرمسلم شہری پر فرض تھا، معاہدے کے تحت مدینہ بھر میں بسنے والے تمام باشندے مذہبی وابستگی سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے حلیف قرار پائے،
اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمانوں پر حملے کی صورت میں غیرمسلم اور غیرمسلموں پر حملے کی صورت میں مسلمان ساتھ دیں گے، ریاست مدینہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ دیگر اقوام سے پرامن تعلقات استوار کرنا تھا، اس سلسلے میں غیرجانبدار رہنے والے قبائل کے فیصلے کا احترام یقینی بنایا گیا، مدینہ میں قانون کی نظر میں سب شہری برابر تھے اور کسی کی کوئی سفارش نہ مانی جاتی، ایک مرتبہ اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والے مجرم کیلئے رعایت مانگی گئی تو فرمایا کہ اگر میری اپنی بیٹی بھی چوری کرتی تو سزا کی حقدار ہوتی، امورِ ریاست بخوبی سرانجام دینے کیلئے ساتھیوں سے مشاورت کا نظام قائم کیا گیا، حکومتی عہدوں کو ایک امانت قرار دیا گیا اور اس حوالے سے پالیسی بنائی گئی کہ امانت انہی لوگوں کے سپرد کی جائے جو سنبھالنے کے اہل ہوں، ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے دنیاوی علوم سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی گئی، جنگ بدر کے نتیجے میں قید ہونے والوں کو پیشکش کی گئی کہ وہ مدینہ کے رہنے والوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے آزادی حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح کاروباری اور دیگر دوطرفہ معاملات میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔ آج 1400برس گزر جانے کے بعد جب ریاست مدینہ کے طرز پر نیا پاکستان بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں تو
عوام بالخصوص غیر مسلم اقلیتی کمیونٹی کی موجودہ حکومت سے توقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے، احساسِ عدم تحفظ میں مبتلا غیرمسلموں کوعرصہ دراز کے بعد ایسا محسوس ہوا ہے کہ انہیں پاکستان میں وہ یکساں حقوق میسر آسکیں گے جسکا وعدہ قائداعظم نے بھی گیارہ اگست کی مشہور تقریر میں کیا تھا، یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ قائداعظم کی اپیل پر محب وطن غیرمسلموں نے تو ہجرت کا ارادہ ترک کردیا لیکن انہیں پاکستان میں قومی دھارے سے ہمیشہ دور رکھا گیا، اسکی ایک مثال تقسیم ہند کے موقع پر ہجرت کرجانے والے ہندوؤں کی جائیداد کی دیکھ بھال کیلئے قائم متروکہ وقف املاک بورڈ ہے جسکا سربراہ تو ایک طرف کوئی ایک غیرمسلم بھی بورڈ کا ممبر نہیں، آج نااہل انتظامیہ کے باعث ملک بھر کے مقدس اقلیتی مقامات خصوصی توجہ کے طالب ہیں، دوسری طرف بھارت اور اسرائیل کے خودمختار متروکہ وقف املاک اداروں کی انتظامیہ مکمل طور پر مقامی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خواتین اور چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اہم حکومتی عہدوں پر فائز کرنے سے بلاشبہ ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے احساسِ محرومی کو کم کرنے میں مدد ملے گی لیکن میرٹ کی بنیاد پر حکومتی سطح پر ایسے قابل غیر مسلموں کی تعیناتی بھی ضروری ہے
جنکی جڑیں اپنی کمیونٹی میں ہوں اور وہ تمام مکاتب فکر کے مابین پُل کا کردار ادا کرسکتے ہوں، میری نظر میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومتی عہدوں کو قومی امانت سمجھ کر قابل لوگوں کے حوالے کرنا ریاست مدینہ کی طرف اہم قدم ثابت ہوگا، اسی طرح نئے پاکستان کے امورِ حکومت میں غیرمسلموں کی بھرپور موجودگی عالمی برادری کے سامنے وطن عزیز کا نام روشن کرنے کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ میں آج پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حج کے خطبے کی اصل روح کو سمجھیں اور پاکستان کو ایک حقیقی رول ماڈل فلاحی ریاست بنانے کیلئے قانون سازی میں تعاون کریں، نئے پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ غیرمسلموں کے وہ حقیقی سیاسی نمائندے بذریعہ انتخابات پارلیمان کا حصہ بنیں جنکی جڑیں اپنی کمیونٹی میں ہوں اور وہ ملک و قوم کی بہتری کی خاطر فعال کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ آئیں، آج ہم سب ملکر عہد کریں کہ ہم اپنے پیارے وطن میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کیلئے ریاست مدینہ کو حقیقی معانی میں اپنی جدوجہد کا محور بنائیں گے۔