شاید ہی کوئی دور ہو جب ہمارے بیرونی اور اندرونی دشمن پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف نہ ہوں مگر اس بار ان کے ارادے زیادہ خطرناک ہیں جنہیں ہم نے مل کر ناکام بنانا ہے۔ پہلے بیرونی سازش پر بات ہو جائے۔ یہ اچھی بات ہے کہ چیف آف آرمی ا سٹاف جنرل راحیل شریف نے یوم دفاع کے موقع پر اپنی تقریر میں یہ صاف کہہ دیاکہ وہ دشمنوں کی ہر ظاہری اور خفیہ سازش سے آگاہ ہیں اور دوستی نبھانا جانتے ہیں اور دشمنی کا قرض اتارنا بھی۔ جب سے پاک چین اقتصادی راہداری کے 46بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں اور ان پر بڑی تیزی سے کام شروع ہوا ہے پاکستان کے خلاف سازشیں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ بھارت کا اس پر واویلا کرنا اور اس تاریخی منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششیں کرنا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس کو یہی کچھ کرنا ہے۔ تاہم امریکہ بھی اس سازش میں اب مکمل طور پر شامل ہے اور نہ صرف اس کی بلکہ برطانیہ اور دوسرے بہت سے ممالک کی بھی یہ سر توڑکوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کیا جائے تاکہ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکے اور اس کی چین کے ساتھ دوستی میں بھی نئے باب رقم نہ ہوں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح چین کا پاکستان میں اثرورسوخ مزید مستحکم نہ ہو۔ چین کے خلاف امریکہ اور بھارت قدرتی اتحادی ہیں کیونکہ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی چین کا کردار نہ بڑھ سکے۔ اگرچہ اس سارے کھیل میں افغانستان کی کچھ زیادہ حیثیت نہیں ہے مگر پاکستان کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اس سازش میں بڑھ جاتی ہے۔ یقیناً وہ بھی امریکہ اور بھارت کا ہمنوا ہے۔ جہاں تک پاکستان کے دوسرے اہم ہمسائے ملک ایران کا تعلق ہے وہ کافی حد تک اس سازش کا حصہ نہیں لگتا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی بھارت کا اثرو رسوخ کافی بڑھ رہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے گرد گھیرا ڈالنا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات تھی کہ را کا ایجنٹ کلبھوشن یادیو بھی ایران سے ہی افغانستان میں داخل ہوتا رہا ۔ کچھ ماہ قبل ایرانی صدر کے اسلام آباد کے دورے سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کسی طرح بہتر نہیں ہوئے تھے بلکہ عین اس موقع پر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سامنے آئی۔ یہ مثبت بات ہے کہ چین بھی مکمل طور پر آگاہ ہے کہ امریکہ، بھارت اور افغانستان نے مل کر جو سازش تیار کی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں کو روکنا ہے تاکہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات مزید مضبوط نہ ہوسکیں۔ پاکستان میں نہ صرف حکومت اور فوج بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے بہت سے اختلافات کے باوجود یک آواز ہیں کہ اقتصادی راہداری کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنانا ہے اور اس کے تحت منصوبوں کو ہر صورت مکمل کرنا ہے کیونکہ اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ یہ راہداری صرف پاکستان کی اقتصادی حالت کو ہی بہت بہتر نہیں کرے گی بلکہ اس سے اسلام آباد بیجنگ کے تعلقات نئی بلندیوں کو چھوئیں گے۔
اب آتے ہیں اندرونی سازش کی طرف۔ پاکستان میں پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے پچھلے تین سال سے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ اس کو ہر وہ کام کرنا ہے جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہو اور ملک بیرونی دنیا میں سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہ کرسکے۔ سیاست کرنا اس کا آئینی حق ہے مگر اس سے بیرون ملک یہ پیغام جانا کہ پاکستان میں سوائے شور شرابے کے کچھ بھی نہیں ہے سازش نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں اگر اس طرح کی انارکی پیدا کی جاتی رہے گی تو اس سے جو بھی تھوڑی بہت بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے وہ بھی نہیں ہوگی۔ پہلے ہی 2014ء کے دھرنوں کی وجہ سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر معاہدے فائنل ہونے میں کافی تاخیر ہوئی تھی کیونکہ چینی صدر کا دورہ وقت پر نہیں ہوسکا تھا۔ اس وقت جبکہ اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر بڑی تیز رفتاری سے کام جاری ہے اور یہ وقت پر مکمل ہونے جا رہے ہیں جس سے 2017ء کے آخر تک پاکستان سے بجلی کا بحران ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا تو عمران خان نے پھر اعلان کر دیا ہے کہ وہ 24 ستمبر کو جاتی امرا رائیونڈ (وزیراعظم نوازشریف کی ذاتی رہائش گاہ) مارچ کریں گے۔ اس سے انہیں سیاسی طور پر تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا مگر پاکستان کو نقصان ضرور ہوگا خصوصاً بیرونی دنیا کی نظر میں۔ وہ اپنی اور اپنے قریبی ساتھیوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں جواب دینے کو تو تیار نہیں مگر دوسروں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ نہ صرف انہیں معلوم ہے بلکہ تمام مبصرین کا بھی یہ خیال ہے کہ اب ان کے احتجاج میں لوگوں کی شمولیت 2014ء کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے۔ ان کی خفگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر انتہائی قدم اٹھانے کو تیار ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح حکومت کو چلتا کیا جائے۔ وہ بجائے اس کے کہ قانونی اور عدالتی جنگ پر توجہ دیں سڑکوں پر بھاگ رہے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح لوگ ان کے پیچھے آ جائیں۔ الیکشن کمیشن نے اب انہیں طلب کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے فنڈز میں خورد برد کے کیس جو کہ اکبر ایس بابر نے فائل کر رکھا ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے بھجوائے گئے ریفرنس جس میں ان کی آف شور کمپنی اور ٹیکس چوری کا ذکر ہے کا جواب دیں۔ تاہم وہ الٹا حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف آف شور کمپنی کے مسئلے پر تحقیقات کرائی جائے حالانکہ پاناما لیکس میں نوازشریف کا ذکر ہی نہیں ہے اگرچہ ان کے بچوں کے نام کمپنی ہے۔ جب پی ٹی آئی نے پارلیمانی کمیٹی جو کہ ٹی او آرز تیار کرنے کیلئے بنائی گئی تھی کا بائیکاٹ کیا تھا تو عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعظم کی رائیونڈ رہائش گاہ کے سامنے دھرنا دیں گے۔ اس ایک اعلان پرتمام اپوزیشن کی جماعتیں جو کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ آف شور کمپنیوں کے مسئلے پر تعاون کر رہی تھیں نے انہیں صاف بتا دیا تھا کہ وہ ان کے اس اقدام کے مکمل طور پر خلا ف ہیں۔ اس پر عمران خان نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا مگر اب وہ پھرپر جوش ہیں۔ یقیناً تمام سیاسی جماعتیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی سائیڈ سے ہے وہ ان کے اس ایڈونچر کی نہ صرف مذمت کریں گی بلکہ مکمل طور پر اس کے خلاف صف آرا ہوں گی۔ 2014ء کے دھرنوں کے وقت بھی پارلیمان کی تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کا کھل کر ساتھ دیا تھا کیونکہ وہ جمہوریت کے خلاف سازش کو ناکام بنانا چاہتی تھیں۔ اس بار پھر کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ تاہم عمران خان ہمارے ایسے سیاستدان ہیں جنہیں ان چیزوں کی کوئی پروا نہیں ہے چاہے ان کا سیاسی نقصان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کتنی بری طرح ناکام ہوں۔ اس بات کا امکان ہے کہ علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک پی ٹی آئی کے ساتھ اس عمل میں کسی نہ کسی سطح پر شریک ہو جائے گی۔ مسئلہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں کیسے سمائیں یعنی علامہ صاحب بھی اپنے آپ کو پاکستان کا سب سے اہم لیڈر سمجھتے ہیں اور عمران خان بھی۔
بشکریہ جنگ