تحریر : شاہ بانو میر
آج مودی کا 15 اگست کا خطاب سنا اجڈ جاہل ان پڑھ انسان لفظوں کے تیر چلا کر ہر ذی فہم پاکستانی کا کلیجہ چھلنی کر رہا تھا ٬ کچھ نہ کچھ تو سچائی ہوگی اس کا کہنا تھا کہ 2016 کے جشن آزادی پر اسے بلوچستان گلگت آزاد کشمیر سے بہت سے پاکستانیوں نے بھارت کے یوم آزادی پر مُبارکباد بھیجی ہے٬ اس کا مطلب مُبارکباد نہیں اس کا مطلب ہے کہ ان علاقوں کی عوام اس قدر بیزار ہے کہ وہ اسے مُبارکباد میں چھپا کر دعوت دے رہے ہیں اور بھارتی حکومت اور اس کے وزیر اعظم کو قابلیت کا سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں٬ ابھی اس کے الفاظ کی گونج دماغ میں مدہم نہیں ہوئی کہ سامنے ایک سیاسی رہنما کا چہرہ ایک تجزیہ کار کے ساتھ دکھائی دیا ٬ سوچا کہ شائد مودی کے اس بیان پر کوئی جاحانہ بیان جاری کرنے لگے ہیں۔
مگر یہ کیا؟ وہ تو پاکستان میں بیٹھ کر اپنے ہی وزیر اعظم کو اس بری طرح صلواتیں سنا رہے تھے بغیر موقع محل کی سنجیدہ نزاکت کا خیال کرتے ہوئے؟ میرے ذہن کی سکرین پر بغداد کا منظر ابھرا اور مجھے اس وقت یہ سیاستدان بالکل ماضی کے بغداد کےبڑوں جیسا لگا جو تاتاریوں کے ملک میں داخلے سے بے خبر لوگوں کو دفاع کی بجائے بحث و تمحیص میں الجھا کر داد وصول کر رہے تھے٬ ٬ تاتاریوں نے نہ عالم چھوڑے اور نہ ان کے مکتب فکر آج کے حالات کو بغداد کے تناظر میں جانچنے کی ضرورت ہے٬ کوئی سیاستدان ایسا ہے جو بولتا ہے تو قومی حسد نہیں ذاتی سیاست کی ناکامی سنائی دیتی ہے٬جس کا کام گزشتہ دس برسوں سے قرعہ فال نکال کر خود کو خبروں میں اور پروگرامز میں زندہ رکھنا ہے۔
آج ہر سیاسی جماعت کو مشتعل کر کے سیاسی بحران لانے کا ذمہ دار ہے٬ بڑی مشکلوں سے اس ملک کے مُردہ ادارے کچھ کچھ جاگ رہے ہیں ٬ ان اداروں کو اس نازک وقت میں سنبھالنے کی بجائے صرف ایک دوسرے پے تنقید اور ملک کو کمزور کرنے والے ایسے عناصر کو پاکستان کی نئی نسل کبھی معاف نہیں کرے گی ٬ملک حالت جنگ میں ہے کیا جنگ میں مُبتلا ملک کے سیاسی رہنماؤں کا یہ کردار ہونا چاہیے جو ان صاحب کا ہے؟ سلامت رہے سیاست اور سلامت رہیں سیاسی قائدین مگر اس وقت پاکستان کو بغداد نہ بنائیں لہو رنگ سڑکیں گلی کوچے اب دشمنان وطن سے پاک ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ہماری آپس کی ناچاقی بچے کھچے ناکام دشمنوں کو شہ دینے کا موجب بنے گی ٬ چہشت گردی کا زہر پھر سے ملک کے گلی کوچوں میں سرایت کر جائے گا احتساب کا عمل ضرور ہونا چاہئے مگر احتسا ب جنگ میں کامیابی کے بعد مناسب اور پرسکون پاکستان میں ہونا چاہیے ٬ فوری ضرورت اس وقت شر پسندوں کے خاتمے کی ہے۔
“” را”” کی بالا دستی کو ختم کر کے ملک میں بحالی سکون کی ہے ٬ ترقی کے راستے کشادہ کر کے چائنہ کاریڈور کی حفاظت کی ہے٬ عوام اپنے ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہو گئے ہیں ٬ ہمارے سیاسی رہنما صرف اور صرف اپنی سیاست کی کشتی کو ڈوبتے ابھرتے دیکھ کر جدو جہد مسلسل میں ہیں کہ کوئی سیاسی وار کوئی حربہ کام کر جائے اور وزیر اعظم کو ہٹا دیں٬ سیاستدان کہتے ہیں”” ایاک نعبد وایاک نستعین “” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ خود ہی نفی کر کے کہتے ہیں جب آئے گا ۔۔۔۔۔۔ بنے گا پیارا پاکستان؟ جب مدد اللہ سے چاہی ہے تو اب انتظار کیجئے اسکی مدد کا ٬ جب ملک میں منفی سیاست زور پکڑتی ہے بد بختی عوام کی آتی ہے سانحہ بلوچستان حالیہ مثال ہے ٬کیا ہمارے سیاستدان عوامی جان و مال کا تحفظ نہیں چاہتے؟ پہلے مل کر دشمن سے اس ملک کو پاک کریں عوام محفوظ ہو جائے تو پھر جو جی چاہے کریں متحارب سیاست بربادی کا عنوان ہے۔
مودی سرکار کی ذہنیت اور اسلام دشمنی مصلحت کے پردوں مین چھپی تھی جو آج عیاں ہوگئی ٬ آج چاہیے یہ تھا کہ اپنی تحریکیں ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام سیاسی اکابرین یکجا ہو کر کشمیر اور دفاع پاکستان کیلئے بھارت کو یک زبان جواب دیتے٬سیاست دان 40 منٹ کے پروگرام میں 35 منٹ نواز کے شکوے کرتے رہیں اور آخری 5 منٹ میں بھارت کو للکاریں تو بات نہ پہلے بنی تھی نہ ہی آج بنے گی٬ سیاست سے بالاتر عوام اب اپنے لئے کئے گئے رفاحی اقدامات کی خاموش حوصلہ افزائی کر کے حمایت دے رہی ہے۔ اسی وجہ سے سیاستدان عوام کو ہر قیمت پر سڑکوں پر لا کر خفت مٹانا چاہتے ہیں۔ جو سر دست ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔
اے رب العالمین !!پاکستان کو اندر داخل ہونےو الے اِن تاتاریوں سے بچا لے جو پاکستان میں بحث و مباحثے میں سیاسی دانوں کو الجھا چکے اور وہ استحکام پاکستان کی بجائے جماعت مستحکم کرنے لگے٬ وہ بے خبر ہو گئے کہ دشمن بغداد کی طرح ان کے قریب قریب بربادی کے اسباب پھیلا چکا ہے ٬ جس کا ثبوت 15 اگست کی مودی کی انتہائی قابل مذمت تقریر ہے٬ یا اللہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔
تحریر : شاہ بانو میر