تحریر: میر افسر امان
ملک ممتاز حسین قادری شہید کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دے دی گئی۔ سلمان تاثیر جو کہ پنجاب کا گورنر تھا شہید اس کے ساتھ سیکورٹی کی ڈیوٹی انجام دیتا تھا۔ سلمان تاثیر نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اس پر شہید نے اسے قتل کر دیا تھا اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیا تھا۔اس قتل کے جرم میں شہید کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔سلمان تاثیر ہمیشہ اسلام اور اسلام کے عقائد پر تنقید کرتا تھا۔ اس کو اس کے دوستوں نے کئی دفعہ سمجھایا بھی تھا مگر سلمان تاثیر پر مغربی آقائوں کی آشیر با د ہمیشہ غالب رہتی تھی جس کی وجہ سے اسے اس کی سزا ملی تھی۔
اس کا کیس نچلی عدالت سے اعلیٰ عدالت تک گیا۔ شہید کو انگریزی قانون شہادت کے مطابق پھانسی دی گئی تھی جو اسلامی قانون کی روح کے مطابق نہیں تھی۔ اگر ملک میں اسلامی شہریت کے مطابق عدلیہ کا نظام ہو تا تو شہید کو بری کر دیا جاتا۔ ہماری عدالتیں پارلیمنٹ سے پاس شدہ قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی اسلامی جماعتیں ملک میں اسلامی شہریت کے لیے زور لگاتی رہتیں ہیںمگر عوام نے ہمیشہ اسلامی کی روح سے ناواقف لوگوں کو ہی ووٹ دیے جس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کوآزادی ہے مگر اللہ کے رسول ۖسے محبت کرنے والوں کو ایسے ہی پھانسیوں پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
بلکہ اب تو فیشن بن گیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے رسولۖ کی شان میں غیر مسلم گستاخی کرتے ہیںاور مغرب سے مرغوب حکمران ان کو برطانیہ، جرمنی اور امریکہ بھیج دیتے ہیں۔مغرب کی فنڈڈ اور اسلام بیزار این جی اوز اس کا م میں پیش پیش ہیں۔ اس میں قادیانی لابی بھی شامل ہے جو پاکستان کو کمزرو کرنے والے ہر موقعہ کی تلاش میں رہتی ہے تاکہ پاکستان کے اسلامی آئین کو ختم کر یں جس میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سیکولر طبقے اسلام کے نام سے الرجک ہیں اور ہر وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی نام کو ختم کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام سے بنا تھا۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہم پاکستان میں اسلام کے قوانین کو راج کر کے ایک فلاحی حکومت قائم کریں گے۔ مگر مغرب سے مغلوب ایک طبقہ جو کو مغرب کی مادرپدر آزادی سے لگائو رکھتا ہے پاکستان کو سیکولر بنانے کی کو شش میں لگا رہتا ہے۔اگر یہی بات ہوتی تو ہندوستان سے علیحدہ ملک بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ قائد اعظم نے اس بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کی بنیاد رکھی تھی اور قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں رہتی ہیں دونوں کے مذہب علیحدہ ہیں ۔ایک مسلمان اور دوسرے ہندو۔ان کے عقائدجدا ہیں۔ ایک قوم بتوں کی پوجا کرتی ہے تو دوسری توحید پر عمل پیرا ہے۔ دونوں قوموں کے ہیر و تک جدا جدا ہیں۔
اسی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں نے ”پاکستان کا مطلب کیا لا الا اللہ ” نعرہ لگا کر مملکت خداداد پاکستان حاصل کر لیا تھا۔اگر یہاں اسلام کا قانون نافذ ہوتا ،تو نہ سلمان تاثیر رسول ۖ اللہ کی شان میں گستاخی کرتا اور نہ شہید اُسے قتل کرتا۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کے بعدرسول ۖ اللہ محترم ہیں۔ ان کے لیے کہ دین اسلام کا ماخذ کا رسولۖ اللہ ہے ۔رسول ۖاللہ کے دور میں گستاخ رسول ۖ کی سزا موت تھی جس کو اسلامی دنیا میں ١٤٠٠ برس تک برقرار رکھا گیا تھا۔ کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کو رسولۖ اللہ کے کہنے پر قتل کیا گیا تھا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر عبداللہ بن خطل کو بھی رسولۖ کے کہنے پر قتل کیا گیا تھا۔(صحیح بخاری)قرآن کی تعلیمات کے تحت صحابہ آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔اپنی جان، مال اولاد اور دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر رسولۖ اللہ سے محبت کرتے تھے۔
ایک نابینا صحابی نے اپنی بہن کو اس لیے قتل کر دیا تھا کہ وہ رسولۖا للہ کی شان میں سب و شتم کرتی تھی(سنن نسائی سنن ابی دائود)اس کے علاوہ اور بھی واقعات ہیں جس میں صحابہ نے گستاخ رسولۖ اللہ کو قتل کیا تھا۔اسلامی تاریخ میں مسلمان حکمرانوں نے اس پر ہی عمل کیا اور گستاخ رسول کو قتل کی سزا دی گئی۔اور اگر کسی مسلمان فرد نے گستاخ رسولۖ کو ختم کیا تو مسلمان حکمرانوں نے اس کوکوئی بھی سزا نہیں دی۔برصغیر میں قائد اعظم نے غازی علم الدین کا مقدمہ لڑا اور اسے بچانے کی کوشش کی۔اقبال نے حسرت سے کہا تھا کہ ”ہم جیسے لوگ سوچتے ہی رہ گئے اور بڑھیوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
یہ ہے شاتم رسولۖ اللہ کے حوالے سے مسلمانوں کی روایات۔ سلمان تاثیر نے غیر مسلمہ سزا یافتہ شاتمہ رسولۖاللہ سے اظہار محبت و یکجہتی و ہمدردی اور توہین رسالت کے قانون کو ظالمانہ اور کالا قانون کہا تھااور اسے منسوخ کرانے کا عندیہ ظاہر کیا تھا تو لوگوں میں اشتعا ل پھیل گیا تھا ۔علما ء نے اس کے خلاف توہین رسالت کے فتوے دیے تھے۔ اور توبہ کا مطا لبہ بھی کیا تھا مگر سلمان تاثیر بر سر عام میڈیا پر اپنے موقف کو دہراتا رہتا تھا۔ لوگوں نے مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے استثنیٰ کی بنیاد پر مقدمہ قائم نہ کیا تو پھر ملک ممتاز حسین قادری شہید نے رسولۖ اللہ کی محبت اور ایمانی جوش میں آکر اُسے قتل کر دیا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میںتمام علما ء نے متفقہ فیصلہ دیاتھا کہ شہید نے شاتم رسولۖاللہ سلمان تاثیر کو قتل کر کے کوئی جرم نہیں کیا۔ مگر مغرب زدہ حکمرانوں،سیکولر اور مغربی فنڈڈ
ساین جی اورز نے شہید کی سزا کی تائید کی جو اسلام کے خلاف ہے۔اب پورے ملک میں اس سزا کے خلاف مظاہر ے ہوئے ہیں۔ ملک میں کاروبار بند ہو گیاہے ۔شہروں شہر شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین کے پتلے جلائے جا رہے ہیں۔ملی یکجہتی کونسل کے تحت کراچی اور ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج پر مظاہروں کا انتظام کیا گیاہے ۔ نواز حکومت نے الیکٹرونک میڈیا پر ان خبروں کی پابندی لگا دی ہے۔ کراچی میںدفعہ١٤٤ اور موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگا دی گئی ہے۔راولپنڈی لیاقت باغ میں عاشق رسولۖ اللہ کا جنازہ حکومت کے خلاف ریفرنڈم ثابت ہوا ہے۔ لیاقت باغ سے مریڑ چوک تک صف بندی میں ہر مسلک کے لاکھوں لوگ شامل ہوئے ہیں۔ ملک بھر سے لوگوں کا جم غفیر اُمنڈآیا تھا۔طلوع آفتاب سے پہلے ہی لیاقت باغ بھر گیا تھا۔سینکڑوں ٹن پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ جڑوں شہر غلامی رسولۖ میں موت بھی قبول ہے کے نعروں سے گونجتا رہا۔شباب اسلامی نے نماز جنازہ کے انتظامات کئے تھے۔معروف شخصیت پیر سید حسین الدین شاہ نے امامت کی۔
سراج الحق، مفتی منیب الرحٰمان،ثروت قادری،ابوالخیر زبیر،اویس نورانی،صاحبزادہ حامد رضا،کوکب نورانی سمیت پورے ملک کی دینی جماعتوں کے نمائندوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔دوسرے روز بھی کاروبار بند رہا۔ اسلام آباد کے قریب شام چھ بج کر بیس منٹ پر اُٹھال گائوں میں عاشق رسولۖ جناب ملک ممتاز حسین قادری شہید کی تدفین کر دی گئی اور لوگ پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔اتنے بڑے واقعہ پر ملک کا الیکٹرونک میڈیا جو اپنی آزادی کے گن گاتے تھکتا نہیں مکمل طور پر خاموش تھا۔ بی بی سی نے اس موقعہ پر کہا کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا نے سمجھداری کا ثبوت دیا۔ یعنی مغرب کے نمائندہ بی بی سی نے ہمارے میڈیا کی شرمناک تعریف کر کے مسلم دشمنی کا ثبوت دیا۔ آج پرنٹ میڈیا نے کے کچھ اخبارات ے بھی صحافت کے اقدار کی نفی کرتے ہوئے لاکھوں کے مجمع کو ہزاروں کا مجمع لکھا۔ بہر حال نواز حکومت نے اپنی سلطنت کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع کرا دی ہے۔ اللہ جناب ملک ممتاز حسین قادری شہید کی شہادت قبول فرمائے اور مسلمانوں کوناموس رسالتۖ کی حفاظت کی توفیق بخشے آمین۔
تحریر: میر افسر امان