سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں سرزمینِ عرب میں ایک تاش ٹورنامنٹ کا میچ دکھایا جا رہا ہے۔ ان تصاویر اور ویڈیوز میں خاص بات یہ ہے کہ وہاں سابق امامِ کعبہ الشیخ عادل بن سالم بن سعید الکلبانی بھی موجود ہیں۔ ان تصاویر اور ویڈیوز سے قبل سعودی شہزادے محمد بن سلمان بن عبد العزیز کا یورپی میڈیا کو دیا گیا ایک متنازعہ انٹرویو بھی موضوعِ بحث بنا رہا جس کے بارے میں بعض یورپی میڈیا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس انٹرویو میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ہم نے امریکیوں کے کہنے پر دنیا بھر میں وہابیت کے نظریے کو فروغ دیا ہے۔
ماضی قریب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی بادشاہ کی جانب سے امریکی صدر کےلیے بے شمار تحائف دیئے گئے اور اس کے عوض مختلف قسم کے ہتھیاروں اور دیگر سہولیات کی امر یکی صدر کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی۔
حالیہ تاش ٹورنامنٹ کی تصاویر کو کچھ لوگ “جوا خانہ” کے عنوان سے آگے پھیلا رہے ہیں اور کچھ لوگ اس بات پر شدید غصے میں ہیں کہ اِنہیں جوا خانہ کیوں کہا جا رہا ہے، حقیقت بتائی جائے اور تاش کا ٹورنامنٹ کہا جائے۔ اس بات کی بھی وضاحت پیش کی جا رہی ہے کہ جس معزز ہستی کی موجودگی ایسی تصاویر اور ویڈیوز میں دکھائی گئی ہے وہ مستقل امامِ کعبہ نہیں تھے بلکہ وہ وہاں صرف تراویح کی امامت کیا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیخ عادل الکلبانی کی حیثیت ایسی ہے جیسے پاکستان میں مفتی عبد القوی۔
کچھ لوگ اس واقعے کو ایک معمولی نوعیت کی سرگرمی سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ وہاں عام کھیلا جانے والا ایک کھیل ہے جسے “بلوت” کہا جاتا ہے۔ آج ہی سعودی عرب میں ایک سینما گھر کا بھی افتتاح ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس واقعے کا عوام الناس اور علماء کے طبقے کی جانب سے کیسا ردّ عمل دیکھنے کو ملے گا۔ کیا سینما کے جواز کے دلائل پیش کیے جائیں گے یا پھر لوگ جذبات میں آکر فتوے دینا شروع کر دیں گے۔
فرض کریں کہ ایسا کوئی ٹورنامنٹ یا کلب پاکستان میں کھولا جاتا جہاں کسی بڑی مسجد کے سابق امام اور مفتی بھی موجود ہوتے، کیا تب بھی اس کا ایسا ہی ردعمل ظاہر ہوتا جیسا کہ سعودی عرب کے حوالے سے دیکھنے کو ملا ہے؟ یا پھر اس سے کچھ مختلف اور الگ قسم کا رد عمل ہوتا۔
لوگوں کے ایک طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ سعودی حکومت میں ہوا ہے اور سعودی عرب کے حکومتی علماء نے ایسے ٹورنامنٹ کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا، اگر یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتا تو سعودی علماء اور مفتی حضرات اس واقعے کی تردید اور مذمت ضرور کرتے، بلکہ اسے ختم کرنے کے احکامات جاری کرتے، حالانکہ ایسا نہیں کیا گیا۔ اس لیے یہ ناجائز نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
علماء کے ایک اور طبقے کی یہ رائے بھی ہے کہ ایسے کام لہوولعب میں شمار ہوتے ہیں اور مقدس سرزمین پر اس طرح کی کسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس طبقے کے حاملین سعودی عرب کے نامور علماء کرام کی ایک آن لائن فتویٰ کمیٹی کے فتویٰ کو بھی بطور حوالہ پیش کرتے ہیں جس کے مطابق اگر تاش کھیلنا نماز میں سستی اور رکاوٹ پیدا نہ کرے، اور اس پر رقم بھی نہ لگائی گئی ہو تب بھی یہ جائز نہیں ہے۔ اس فتویٰ کمیٹی کی سربراہی الشیخ محمد صالح المنجد کرتے ہیں۔
یہ نکتہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر شیخ عادل الکلبانی ایک متنازعہ شخصیت کے حامل تھے جیسا کہ کچھ تحاریر میں بتایا جا رہا ہے تو ایسے کردار کے حامل کو امامِ کعبہ جیسا مقدس فریضہ سرانجام نہیں دینا چاہئے تھا۔
پاکستان میں اگر کوئی اس طرح کے کاموں میں ملوث ہو تویہاں جذباتی لوگ فوراً ان پر مشرک اور بدعتی جیسے فتوے لگا دیتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے معاملے کو کچھ اور طرح سے دیکھا جارہا ہے۔ اور شاید ایسا کرنا بھی چاہئے کیونکہ سعودی عرب کی کسی بھی سرگرمی کا براہِ راست اثر تمام مسلمان ممالک پر ہوتا ہے۔
تاش کلب یا ٹورنامنٹ کے جواز اور حق میں کی جانے والی تمام گفتگو اور مباحث کو ہر تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ہماری تاویلات کو بنیاد بنا کر مستقبل میں جاہل لوگ بطور گواہی پیش کریں کہ اگر سعودی عرب میں یہ کام درست ہیں تو یہاں کیوں نہیں ہیں؟
تمام مسلمانوں کےلیے متبرک سمجھی جانے والی سرزمین میں اگر تاش کلب ہے، اس میں تاش کے میچ بھی منعقد ہوتے ہیں اور اس میں شیخ عادل الکلبانی جیسی معزز ہستی بھی شریک ہوتی ہے، اللہ نہ کرے مستقبل میں یہ جوئے خانے میں بدل جائے اور پھر اس کی تاویلیں بھی پیش کی جانے لگیں کیونکہ شیطان انسان کو بتدریج اور مرحلہ وار گمراہ کرتا ہے۔ ایسا خدشہ اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق قیامت کے قریب سرزمینِ عرب میں دوبارہ بت پرستی شروع ہو جائے گی۔