لاہور (ویب ڈیسک) کسی زمانہ میں افغانستان بھی تَلَور کے غیر ملکی شکاریوں کا پسندیدہ ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔9/11کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ معروف امریکی صحافی اور مصنف سیٹوکول نے افغانستان کے پس منظر میں لکھی گئی اپنی کتاب گھوسٹ وارز میں یونہی چلتے چلتے جنوبی افغانستان میں ایک خلیجی شہزادے کے نامور کالم نگار ریاض احمد سید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکاری کیمپ کا ذکر کیا ہے، جہاں اسامہ بن لادن بھی جایا کرتے تھے۔ 1999میں سی آئی اے نے جب انہیں وہاں تلاش کر لیا، تو نشانہ بنانے کا سوچا، مگر ارادہ ترک کرنا پڑا، کیونکہ مہمان شہزادے کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مجذوب اور وضع دار پرندے سے آخر ایسا کون سا گناہ سرزد ہوگیا ، کہ ایک زمانہ یوں ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے پڑا ہواہے جو وجہ بیان کی جاتی ہے وہ محض روایت ہے‘ جسکی کوئی سائنسی اور تحقیقی بنیادنہیں۔ اسکے گوشت میں طلسماتی قوت کا کوئی بھی ثبوت آج تک مل نہیں پایا۔ مگر چونکہ یہ چمتکار اسکے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، سو لوگ اسکے درپے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ معاملہ الٹ بھی ہوسکتا ہے‘ جس طرح کہ مور کے بارے میں ہوا۔ کوئی سو، سوا سو برس بیشتر اس دلکش پرندے کے ساتھ بھی یہی کہانی جوڑ دی گئی تھی۔ مور کے گوشت کی کریز راجستھان سے شروع ہوئی۔ کیونکہ راجائوں مہاراجائوں کی سرزمین تھی‘ اور اس قسم کے شوق اسی قسم کے لوگ پالتے ہیں۔ مور بیچارے کی تو دوہری کم بختی تھی۔ بال وپر کا جنون الگ، کہ زیبائش کے کام آتے تھے، اور اس پر مستزاد گوشت کی طلسماتی تاثیر کی ہوش رُبا داستانیں۔ اور پھر راجستھان میں موروں کی جوشامت آئی، تو خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں اسکی نسل ہی ناپید نہ ہوجائے۔ ریاستی درباروں میں متعین انگریز ریذیڈنٹ معاملہ کو متواتر رپورٹ کر رہے تھے۔بات برٹش سرکارتک پہنچی، تو لندن کی ایک لیبارٹری نے رپورٹ نکالی، کہ معاملہ تو بالکل ہی دوسرا ہے۔ مور کا گوشت تو سَتّوُ اوردھینے سے بھی گیا گذرا ہے۔یہی وجہ ہے کہ راجستھان کے راجواڑے اکثر لاولد رہتے ہیں۔ (بالی وڈ میں اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں)۔ ایک بات اور کہ جب بازار ہرخاص وعام بیماری کی ایک سے بڑھ کر ایک ادویات سے اٹے پڑے ہیں، تو محض سنی سنائی باتوں کوحرزِ جان بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ مگر کیا کیا جائے، ہم مشرق والے لکیر کے فقیر واقع ہوئے ہیں۔ پر اسرایت ہمارے اندررَچی بسی ہے۔ سنتوں ، سادھوئوں، سنیاسیوں سے ہمیں خاص رغبت ہے، سو ٹونے ٹوٹکوں کے پیچھے چل نکلتے ہیں۔ بہر حال اس تاریخی حکائت سے تَلَور کے دلدادوں کی آنکھیں کھل جانا چاہئیں۔ پہلی فرصت میں گوشت کا لیبارٹری ٹیسٹ ضرور کروالیں ، کہیں بے خبری ہی میں نہ مارے جائیں۔