تحریر : سلطان حسین
ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ‘پروفیسر نے ریسور اٹھایا تو دوسری طرف سے بیگم کی گھبرائی ہوئی آواز آئی ”غضب ہوگیا ننھے نے سوئی نگل لی ہے آپ جلدی آئیے ”پروفیسر نے بے دھیانی میں جواب دیاا ”اس وقت میں کلاس میں ہوں بیگم چالیس منٹ بعد آؤں گا” ۔بیوی نے غضبناک ہوتے ہوئے کہا ”بھاڑ میں جائے تمہاری کلاس ‘معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے”پروفیسر نے اطمینان سے کہا ”کیا تمہیں سوئی ابھی چاہیے”پروفیسر کو کلاس کی اور ان کی بیگم کو بچے کی پڑی ہوئی تھی اس لیے وہ گھبرائی ہوئی تھی کسی کو کچھ ہوا یا نہیں بچے کو سوئی نے سٹریچر پر پہنچا دیا ہسپتال میںڈاکٹر اس کے علاج کی فکر میں تھے جبکہ ہر کوئی اپنی ”ماہرانہ”رائے دے رہا تھا یہی صورتحال اس وقت پانامہ لیکس کے انکشاف کی بھی ہے پانامہ لیکس کے انکشاف کے بعد مختلف اطراف سے مختلف آوازیں آرہی ہیں کسی کی آواز گھبرائی ہوئی ہے کوئی ”کلاس” لے رہا ہے کسی کونے سے حمایت کی آوازیں لگ رہی ہیں کوئی ”بزرگوں” کے مشورے سے کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونے میں لگے ہوئے ہیں کوئی خوشامدکی تلوار چلارہا ہے کوئی تلخ نشتر برسارہا ہے ماہرین زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور تجزیہ نگار اپنی کچڑی پکارہے ہیں ہر ایک نے اپنی اپنی دکان سجا رکھی ہے۔
ہر دکاندار یہی کہہ رہا ہے کہ اس کا ”مال” اچھا ہے اور اس کی رائے ہی ماہرانہ ہے باقی سب ”ایںویں ”ہے ان ماہرانہ رائے اور تجزیوں کو اگر درست مان لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک اس وقت شدید بحران کا شکار ہے اورایک افراتفری کا عالم ہے”ہے جمالویا بی جمالو ”کا کھیل اب شروع ہوا کہ اب شروع ہوا۔ کوئی آیا کہ آیا اور یا کوئی گیا کہ اب گیا اسی چکر میں کوئی دیہاڑی لگا رہا ہے کوئی اپنا مول بتا رہا ہے کوئی اپنا مول لگا رہا ہے اور کوئی اپنا مول وصول کر رہا ہے ہر کوئی پانامہ لیکس کو کیش کر نے میں لگا ہوا ہے ایک منڈی سجی ہوئی ہے جس میں قسم قسم کے جانور برائے فروخت کھڑے ہیں بولیاں لگ رہی ہیں کیا لکھاری کیا سیاسی مداری ہر ایک اپنے دام کھرے کر رہا ہے ایسا منظر پیش کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں کہ کوئی ہوا کے دوش پہ اڑا جارہا ہے اور کوئی تخت طاوس کی طرف سفر کر رہا ہے پوری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے اور پوری قوم اس صورتحال سے پریشان ہے لیکن کسی کو اس کی فکر نہیں ہے نہ پانامہ لیکس کے متاثرین کو نہ پانامہ لیکس تماش بینوں کو نہ ہی پانامہ لیکس کے طبل پر چوٹ لگانے والوں کوملک میں ایک تماشہ لگا ہوا ہے اور تماش بین نظارہ دیکھ رہے ہیں ۔
جس کی وجہ سے پورا ملک ایک تماشا بن چکا ہے لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں’ کوئی جرگوں کے نام پر ظلم کا اپنا کھیل کھیل رہے’کسی نے بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے کوئی دوسروں کے خون پسینے کی کمائی پر راتوں رات امیر بننے کے لیے لوٹ مار میں مصروف ہے ہر طرف ڈرامے ہی ڈرامے ہورہے ہیں کوئی حقیقی ڈرامے کر رہا ہے کوئی سیاسی ڈرامے میں مصروف ہے ہر ایک خود کو پارسا اور دوسرے کو بدعنوان اور شیطان ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے ہر کوئی احساس برتری کا شکار ہے دوسروں کو خود سے کم تر سمجھ رہا ہے عام آدمی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد اسے ٹشو پیپر کی طرح پھنکا جارہا ہے یہی وہ احساس برتری ہے جس نے سب کا سکون و چین چھین لیا لیکن پھر بھی کوئی نہیں سمجھ رہا احساس برتری کتنی عظیم غلطی ہے اس کا علم اللہ اوراس کے رسول حضرت موسیٰ کے کلام سے لگایا جاسکتا ہے حضرت موسیٰ کلیم اللہ تھے روزانہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتے تھے ایک دن حکم ہوا کہ موسیٰ جاؤ اور اپنے سے کسی کم تر کو تلاش کرکے لے آؤحضرت موسیٰ نے حکم خدا وندی سے پوری دنیا چھان ماری مگر اپنے سے کم تر کسی کو نہ پایا شام کو خالی ہاتھ لوٹے ‘اللہ پاک نے فرمایا اگر آپ ایک بکری کے بچے کو ہی لے آتے تو ہم آپ کو نبوت سے محروم کر دیتے ۔کسی کو اپنے سے حقیر نہ سمجھو کیونکہ اللہ نے ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور رکھی ہے۔
لیکن اس کے باوجود برتری اور کمتری کا یہ احساس اپنی جڑ مضبوط کرتا جارہا ہے اور یہی ساری خرابیوں کی جڑ ہے اسوقت ملک میں پانامہ لیکس پانامہ لیکس اور پاجامہ لیکس پاجامہ لیکس کا ایک ہنگامہ برپا ہے کوئی اپنی قیمت لگا رہا ہے کوئی اقتدار کی آس پے جی رہا ہے کسی کو تخت طاوس سے رخصت کرنے کے خواب دیکھے جارہے ہیں کون حق پر ہے اور کون ناحق شور مچا رہا ہے سب جانتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو حق اور دوسرے کو ناحق پر سمجھ رہا ہے اور یہی سمجھا جارہا ہے کہ وہی معصوم اور سچ کا علمبردار ہے اوراس نے عام آدمی کو بیوقوف بنا دیا ہے لیکن عام آدمی کیا سوچتا ہے اس کا اندازہ اس ایک پوسٹ سے کیا جاسکتا ہے جس میں وہ کچھ اس طرح فریاد کرتا ہے ”میں ایک ایسے ملک میں رہتا ہوں جہاں ایمبولینس اور پولیس کی بجائے پیزے والا جلدی پہنچ جاتا ہے جہاں کار کے لیے قرض مل جاتا ہے لیکن تعلیم کے لیے غریب کو قرضہ نہیں ملتاجہاں چاول ایکسو تیس روپے کلو ہے لیکن موبائل سم مفت ملتی ہے ۔جوتا جو میں پاؤں میں پہنتا ہوں ائیرکنڈیشن شوروم میں رکھا جاتا ہے جبکہ سبزیاں جو میں کھاتا ہوں فٹ پاتھ کے گندے فرش پر فروخت ہوتی ہیں ۔جہاں شربت میں مصنوعی خوشبو استعمال ہوتی ہے اور ڈش واش میں خالص لیمن کا رس ملایا جاتا ہے جہاں ایم اے’ ایم ایس سی اور ایم بی اے ڈگری والا بیکار پھرتا ہے ۔
ان پڑھ ایم این اے اوے ایم پی اے بن جاتے ہیںجہاں اہل لوگ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور نااہل حکمران بن بیٹھے ہیںجہاں غربت کے ہاتھوں لوگ مرتے ہیں اور حکمران اپنے محلات کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے قومی خزانے سے اڑاتے ہیں اور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں’جہاں کسی کو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوتے ہیں اورکسی کے محلات میں سالانہ لاکھوںروپے کا کھانا ضائع ہوتا ہے جہاں چھوٹے سو روپے کی چوری پر جیل جاتے ہیں اور بڑے اربوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہوتاجہاں ہزاروں روپے کے قرضے پر غریب کو پولیس لے جاتی ہے اور اربوں روپے قرضے لینے والے دھڑلے سے اپنے قرضے معاف کرا لیتے ہیں اس لیے ہمیں ایسے حکمران اور ایسی قیادت نہیں چاہیے ایسے لوگوں کو سولی پر لٹکا دیا جائے تاکہ ان سے ہماری جان چھوٹ جائے ”یہ وہ سوچ ہے جسے صرف نعروں سے ختم نہیں کیا جس سکتا اسی سوچ کی وجہ سے آج کی سیاست کو کاروبار سمجھا رہا ہے اور اس کاروبار میں مصروف ہمارے بڑوں کے بارے میں منفی سوچ 99 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور یہ منفی سوچ صرف اسی صورت میں ہی ختم ہو سکتی ہے ۔
عوام کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے لندن ‘ پیرس ‘سوئٹزلینڈ’پانامہ اور امریکہ کو نہیں بلکہ پاکستان کو اپنا ملک سمجھیںاور آف شورکمپنیاں باہر نہیں پاکستان میں بنائیںاس ملک کے خزانے کو قوم کی امانت سمجھیںاور کروڑوں روپے عمارتوں کی تزئین و آرائش پر خرچ کرنے یابے فائدہ دوروں کی بجائے اسے حقیقی معنوں میں تعلیم پر اور غربت ختم کرنے پر خرچ کیا جائے جس نے بھی اس کو اپنا مقصد حیات بنالیا وہ پاکستان کا مہاتر محمد یا چواین لائی ہوگا اور ملکی تاریخ میں اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور تاریخ میں بھی اسے مہاتر محمد ہی کی طرح یاد رکھا جائے گا لیکن یہ مقصد حیات صرف وہی بنا پائیں گے جو تاریخ کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہوں۔
تحریر : سلطان حسین