لاہور: وفاقی بورڈ آف ریونیو کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف بورڈننگ آف ٹیکس بیس نے شوگر اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں جعلی اکائونٹس کے ذریعے بڑی تعداد میں سیلز اور انکم ٹیکس چوری کا انکشاف کیا ہے۔
ایک قومی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق اس کام میں شوگر اور ٹیکسٹائل کے شعبے کے جعلی ادارے شامل ہیں جو مبینہ طور پر جعلی سیلز سے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق ٹیکسٹائل اور شوگر کمپنیاں ان کے لیے سامان لانے اور لے جانے والے ٹرانسپورٹرز کو جعلی فروخت ظاہر کرتے ہوئے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کر رہے ہیں۔ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد افراد، جن کے شناختی کارڈ جعلی سیلز ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے گئے تھے، کی جانب سے 20 کیسز میں حلف نامے جمع کروائے جاچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان تمام افراد نے حلف نامے کے ساتھ کہا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ کا غلط استعمال کیا گیا اور انہوں نے کبھی بھی اس طرح کی ٹرانزیکشنز نہیں کی ہیں‘۔ اس اسکینڈل کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایف بی آر نے متعدد مینوفیکچررز کی جانب سے جمع کروائی گئی ود ہولڈنگ اسٹیٹمنٹس اور کمپیوٹرائزڈ پیمنٹ رسیدوں کی جانچ پڑتال کی۔
جانچ پڑتال میں یہ بات سامنے آئی کہ مینوفیکچررز نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 236 جی،اینڈ ،ایچ کے تحت ٹیکس کاٹے اور اسے سامان کو اٹھانے والے ڈرائیورز اور روزانہ کی بنیاد پر تنخواہ لینے والے مزدوروں کے نام پر جمع کروایا۔ دستاویزات کے مطابق یہ ٹرانزیکشنز کو چھپانے کا ایک طریقہ اپنایا گیا تھا جس کی وجہ سے مینوفیکچررز، ڈیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ابتدائی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ 100 سے زائد کمپنیوں میں اربوں روپے کی جعلی سیلز کی گئی ہیں۔ادارے کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں جعلی سیلز دکھا کر ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو گمراہ کر رہی تھیں، تاکہ ٹیکس کی چوری کی جاسکے۔حکام کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے مینوفیکچررز ہول سیلر سے ریٹیلر کا منافع چھپا رہی تھی۔ایک اور ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ کام زیادہ تر ڈائریکٹرز کی شناخت چھپانے کے لیے کیا جاتا ہے جو مبینہ طور پر ڈسٹربیوشن کمپنیاں بھی چلارہے ہوتے ہیں۔