ان دنوں چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں ایک دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا کیس زیرِ سماعت ہے۔ چونکہ ہمارے تفتیشی و عدالتی نظام کو ہر طرح کی دیمک لگی پڑی ہے لہذا چیف جسٹس کو ایک ایسے کیس میں بھی ازخود نوٹس لینا پڑا جسے مہذب معاشروں میں نچلی عدالتیں ہی تسلی بخش انداز میں نمٹانے کے لیے کافی سمجھی جاتی ہیں۔
فرض کریں چیف جسٹس کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے طیبہ کیس کا ازخود نوٹس نہ لیتے تو کیا ہوتا ؟ اس کیس کے مرکزی کردار اسلام آباد کے معطل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ محترمہ ماہین ظفر آج بھی ایک معزز قانون پسند شہری کہلاتے۔ سوشل میڈیا پر جب پہلے پہل طیبہ کی تشدد زدہ تصاویر کسی نے پوسٹ کیں تو عزت ماآب خرم علی خان نے ایف ائی اے کے سائبر کرائم ونگ سے تحریری مطالبہ کیا کہ اس جھوٹی بے بنیاد کردار کشی کے ذمے داروں کا پتہ چلا کر انھیں ’’ قانون ’’کی گرفت میں لایا جائے۔
شائد کسی ہمسائے کی رپورٹ پر پولیس نے طیبہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اسسٹنٹ کمشنر پھوٹوہار نیشہ اشتیاق کے روبرو بچی نے اپنے بیان میں کہا کہ جھاڑو گم ہونے پر باجی نے اس کے ہاتھ چولہے پر رکھ دیے اور اس کے چہرے اور جسم پر جو نشانات ہیں وہ تشدد کے ہیں۔
اس بیان کی میڈیا میں تشہیر کے ایک آدھ دن بعد پولیس کو بھی شائد اندازہ ہوگیا کہ اس نے کسی ’’طاقتور مچھلی‘‘ پر کانٹا ڈال دیا ہے۔چنانچہ اگلے بیان میں وہی طیبہ ایک نئے روپ میں سامنے آئی اور کہا کہ ہاتھوں پر زخم کے نشانات چولہے پر رکھنے سے نہیں بلکہ گرم چائے کا برتن الٹنے سے پڑے۔ چہرے اور جسم کے مختلف حصوں پر جو نشانات ہیں وہ دراصل پٹائی کے نہیں بلکہ سیڑھیوں پر سے گرنے کے سبب ہیں۔اس دوران پولیس نے میڈیکو لیگل رپورٹ بھی حاصل کر لی جس میں تصدیق کی گئی کہ گرم چائے اور سیڑھی سے گرنے کے سبب ہی طیبہ کو چوٹیں لگی ہیں۔ساتھ ساتھ یہ بھی اطلاع آ گئی کہ طیبہ کے والد محمد اعظم نے جج صاحب اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا ہے۔چنانچہ بریت کا پرفیکٹ کیس تیار ہوگیا۔
پولیس نے اپنی رپورٹ، میڈیکل رپورٹ اور راضی نامے سمیت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں پیش کی۔جج صاحب نے پولیس و میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں اس راضی نامے کو منظور فرمایا۔ برادر جج خرم علی خان کی اہلیہ کی بعوض تیس ہزار روپے ضمانت منظور فرمائی اور طیبہ کو بھی باپ کے حوالے کردیا۔یوں سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
کاش معافی نامہ قبول کرنے اور ملزم جج صاحب کی اہلیہ کی ضمانت منظور فرمانے کے دوران جج عطا ربانی نے کسی فریق سے یہ بھی پوچھ لیا ہوتا کہ طیبہ کو ایک ہی کیس میں دو بیانات کیوں بدلنے پڑے ؟ ان دونوں بیانات میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے ؟ اگر طیبہ کے ہاتھ چولہے کے بجائے گرم چائے سے جلے اور اس کی آنکھوں کے اردگرد سیاہ حلقے اور دھڑ پر نیلے نشانات تشدد سے نہیں بلکہ سیڑھیوں پر سے گرنے کے سبب ہیں تو پھر طیبہ کے والد نے جج خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو آخر کس خطا پر معاف کردیا ؟
یہاں سے آنر ایبل سپریم کورٹ منظر میں داخل ہوتی ہے اور تمام متعلقہ ریکارڈ اور فریقوں کو بشمول طیبہ طلب فرماتی ہے۔اور پھر پتہ چلتا ہے کہ طیبہ اور اس کا باپ لاپتہ ہیں۔سپریم کورٹ جب ان کی بازیابی کا حکم دیتی ہے تو بھاگ دوڑ کے بعد پولیس بالاخر دونوں کو برآمد کر لیتی ہے۔ حالانکہ اتنے ٹوپی ڈرامے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پولیس کی آنکھ سے تو دراصل دونوں ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہ ہوئے تھے۔اور پھر حقیقت پیاز کے چھلکوں کی طرح کھلتی چلی جاتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے روبرو طیبہ کا والد بیان دیتا ہے کہ اس کی بچی کو ایک عورت نے دو برس پہلے فیصل آباد میں کام دلانے کے وعدے پر ساتھ لیا اور چلی گئی۔تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ اور اٹھارہ ہزار روپے ایڈوانس طے ہوئے۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ بچی کو فیصل آباد نہیں اسلام آباد لے گئی ہے۔دو برس میں میری طیبہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی بس دو بار فون پر بات ہوئی۔جب طیبہ پر تشدد کی خبریں میڈیا پر آئیں تو ایک دن ایک وکیل صاحب گاڑی میں آئے اور مجھے طیبہ سے ملوانے کے وعدے پر اسلام آباد لے گئے۔
یہاں انھوں نے کہا کہ اگر طیبہ کی واپسی اور کچھ پیسے چاہتے ہو تو اس کاغذ پر انگوٹھا لگا دو ورنہ تم طیبہ کی شکل نہ دیکھ سکو گے۔ میں ان پڑھ آدمی ، میں نے انگوٹھا لگا دیا۔پھر وکیل مجھے عدالت میں لے گیا اور وہاں جج صاحب نے کاغذ دیکھ کر بچی میرے حوالے کردی۔اس کے بعد وکیل صاحب ہمیں ایک گھر میں لائے جہاں ایک باوردی شخص بھی تھا۔اس نے میرے فون سے سم نکالی اور چلا گیا۔
معطل جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ نے یہ بیان دیا کہ طیبہ ان کے بچوں جیسی ہے ہم تو تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ہم اس سے کوئی اضافی کام نہیں لیتے تھے۔وہ صرف ہمارے چھوٹے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔جس عورت نے طیبہ کو ہمارے ہاں رکھوایا اسے ہم نے بیالیس ہزار روپے بطور ایڈوانس دیے تھے۔ایک دن طیبہ باہر گئی اور پھر ہمیں پتہ چلا کہ اسے پولیس لے گئی اور پھر ہماری کردار کشی شروع ہوگئی۔یہ ہمسائیوں کی سازش ہے جنہوں نے ہمیں اس جھوٹے کیس میں پھنسوا دیا۔
عدالتِ عظمی کے حکم پر طیبہ کا پمز کے ڈاکٹروں پر مشتمل جس خصوصی ٹیم نے دوبارہ معائنہ کیا اس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ طیبہ کے جسم پر تشدد کے بائیس نشانات ہیں اور ان کی نوعیت حادثاتی نہیں۔اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشن نے عدالتِ عظمی کے حکم پر جو انکوائری رپورٹ تیار کی اس میں معطل جج کی اہلیہ کو تشدد کا ذمے دار اور جج صاحب کو بلاواسطہ ذمے دار ٹھہرایا گیا۔نیز ایک کمسن بچی کو ملازمت دے کر بچوں سے مشقت نہ لینے کے قانون کو بھی پامال کیا گیا۔اس پامالی کے دائرے میں طیبہ کے والدین کو بھی شامل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق طیبہ کے ناخواندہ باپ سے صلح نامے کے نام پر جعلسازی کی گئی۔
اس کیس کا جو بھی فیصلہ ہو۔کچھ باتیں فیصلے سے قطع نظر آئینے کی طرح شفاف ہیں۔اول یہ کہ ایک عام آدمی سے زیادہ ایک جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی معاملات اور پیشہ ورانہ ذمے داریاں ہر ممکن دیانت سے نبھائے گا۔مگر جج خرم علی خان نے جو کچھ بھی کیا یا کہا اس سے ایک شفاف تاثر کی مکمل نفی ہوتی ہے۔ذرا تصور کریں کہ جب موصوف عدالت لگاتے ہوں گے تو ان کے روبرو کٹہرے میں کھڑے ملزموں کو کس معیار کا انصاف ملتا ہوگا۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیریں عدالت کے ایک جج نے دوسرے جج کو بچانے کے لیے مختصر سماعت میں ہی راستہ نکال لیا۔بعد میں اس فیصلے کے بارے میں عدالت عظمیٰ نے یہ رائے دی کہ مذکورہ جج نے کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے کے عمل میں دستیاب حقائق کی مکمل چھان پھٹک کے بجائے جلد بازی سے کام لیا۔
اس کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بہت سے وکلا اپنے پیشے کی حرمت کو بلند رکھنے کے بجائے دلالی و دھوکا دہی کو بھی شائد قانونی پریکٹس کا حصہ سمجھتے ہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ کالے کوٹ میں کالی بھیڑیں ہیں۔یہ کالی بھیڑیں سفید بھیڑوں کے ریوڑ میں بھی شامل ہیں۔حالانکہ سفید بھیڑیں بظاہر کلر بلائنڈ نہیں ہیں۔
اس کیس نے ایک بار پھر آشکار کردیا کہ ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ’’ کا عملی مطلب ہے ’’ پولیس کا ہے فرض مدد طاقت کی ’’۔اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو سوچئے طیبہ پر تشدد کے بارے میں دوسری بار شفاف تحقیقات یا دوسری بار ایک شفاف میڈیکل رپورٹ کا سامنے آنا کتنا ممکن تھا ؟
اس کیس نے یہ بھی بتا دیا کہ صرف غربت بنیادی سبب نہیںبلکہ ایک پوری مافیا ہے جو اس غربت کو ایکسپلائٹ کر کے کم عمر گھریلو ملازموں کی سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کنٹرول کرتی ہے اور اس مافیا کے بے اثر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔کون ہے جو سستے اور بے زبان غلام نہیں چاہتا ؟
اس کیس نے یہ بھی بتا دیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ بچوں سے مہربانی اور پیار سے پیش آؤ تو اس سے مراد ذاتی بچے ہیں۔بھلے ہم اس بابت کتنے ہی نیک بھاشن دے لیں۔میں گھریلو ملازموں اور جبری مشقت کے شکار بچوں کے اعداد و شمار کے جنگل میں نہیں گھسنا چاہتا۔بس اپنا ٹیسٹ خود لے لیجیے۔
کیا آپ کے گھر میں جو نو عمر بچہ یا بچی کام کرتی ہے اسے وقت پر وہی کھانا ملتا ہے جو آپ کے شہزادے اور شہزادی کو ؟ کیا آپ کو کبھی خیال آیا کہ اس بچی کو بھی پڑھنے لکھنے کے لیے کام سے تھوڑا سا وقت ، فیس ، یونیفارم اور کتابیں ملنی چاہئیں؟ کیا جو بچی آپ کے گول مٹول شہزادے یا شہزادی کو گود میں اٹھا کر یا اس کی پرام کھینچ کر کسی ریسٹورنٹ میں جاتی ہے۔اسے روزانہ نہیں تو ہر دوسری یا تیسری آؤٹنگ میں وہی برگر دلوایا جو آپ کا شہزادہ روزانہ اس کے سامنے بیٹھ کر کھاتا ہے ؟ کبھی سوچا اگر آپ کا شہزادہ کسی گھر میں سولہ سولہ گھنٹے کام کرے اور پھر گھر کے اسٹور میں جا کر بوری پر گر کے سو جائے؟ ایسا نہیں ہوا نا؟ خدا کرے ایسا ہو بھی نا۔۔تو پھر اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟
تشدد صرف جسمانی تھوڑا ہوتا ہے؟