تحریر: نعیم الرحمان شائق
اچھا انسان وہ ہوتا ہے ، جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت پکڑتا ہے ۔وہ قصوں ، کہانیوں کو محض تفنن ِ طبع کے لیے نہیں پڑھتا ، بلکہ ان میں پنہاں سبق اور نصیحت پر عمل کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے ۔ دنیا کی سب سے سچی کتا ب اور اللہ تعالیٰ کے آخری صحیفہ ِ ہدایت میں حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کا پر عبرت قصہ بیان کر کے کہا گیا :
“یقیناََ ان کے قصوں میں عقل مندوں کے لیے سامان ِ عبرت ہے۔”(سورۃ یوسف ، آیت نمبر 111)۔
آج کی تحریر میں چند سبق آموز وقعات بیان کیے جائیں گے ۔ یہ واقعات اس لیے لکھے جارہے ہیں ، تاکہ سبق یا نصیحت حاصل ہو ۔ اس لیے کتابوں کا حوالہ نہیں دیا جائے گا ۔ کیوں کہ نصیحت کے لیے سند کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی ۔
1۔ حضرت ابراہیم بن ادہم سے کسی شخص نے کہا : ” میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے یہ جبہ ہدیے میں قبول فرمائیں ۔”
انھوں نے جواب دیا، “اگر آپ غنی اور مال دار ہیں تو میں آپ کا ہدیہ قبول کر لیتا ہوں ۔ اگر آپ فقیر ہیں تو قبول کرنے سے معذرت کرتا ہوں ۔”
اس شخص نے کہا : ” میں امیر ہوں ۔”
حضرت نے پوچھا: “آپ کے پاس کتنا مال ہے ؟”
اس نے کہا :”دو ہزار”
حضرت نے پوچھا:”اگر آپ کے پاس چار ہزار ہو جائیں تو آپ کو خوشی ہوگی ؟”
اس نے جواب دیا : ” جی ہاں ! کیوں نہیں !”
حضرت نے کہا : معلوم ہوا کہ آپ فقیر ہیں ۔ لہذا میں آپ سے ہدیہ قبول نہیں کرتا ۔”
2۔ ابن ِ سماک تقریر کر رہے تھے ۔ ان کی باندی سن رہی تھی ۔جب وہ تقریر سے فارغ ہو کر گھر آئے تو باندی سے پوچھا :”میری تقریر کیسی رہی؟”
باندی نے جواب دیا:”تقریر بہت اچھی تھی ۔ مگر ایک ہی بات کو بار بار دہرانا پسند نہیں آیا ۔”
ابن ِ سماک نے کہا:”میں ایک ہی بات کو بار بار اس لیے دہرا رہا تھا ، تاکہ جو نہیں سمجھا ، وہ سمجھ جائے ۔”
باندی نے کہا :”جب تک نہ سمجھنے والوں کو آپ سمجھاتے رہے ، اس وقت تک سمجھنے والے اکتاتے رہے۔”
3۔ ایک بادشاہ لباس اور غذا میں حلال و حرام کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ سفر کے دوران لکڑی کے تختوں پر بوئی ہوئی سبزیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں ۔ ایک بار انھوں نے ایک شہر پر حملہ کیا ۔ جنگ نے طول پکڑا تو “حلال سبزی” ختم ہوگئی ۔ انھوں نے علاقے کے ایک عالم اور بزرگ سے دریافت کیا :”مولانا ! کسی نہایت دیانت دار سبزی فروزش کا پتا بتائیے ۔ مجھے اس سے سبزیاں خریدنی ہیں ۔ ”
عالم صاحب نے جواب دیا : “افسو س ، صد افسوس! ایک طرف آپ دوسروں کے گھر اجاڑنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف سبزیاں خریدنے میں حرام و حلال کی پابندی کر رہے ہیں !!”
4۔ سکند ر اعظم ایک بار اپنے استاد ارسطو کے ساتھ جنگل سے گزر رہے تھے ۔راستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالا آگیا ۔ نالا بارش کی وجہ سے طغیانی پر آیا ہوا تھا ۔استاد اور شاگرد کے درمیان بحث ہونے لگی کہ خطرناک نالا پہلے کون عبور کرے ۔ آخر کار سکند ر نے پہلے نالا عبور کر لیا ۔ نالا عبور کر کے ارسطو نے سکندر سے پوچھا :”کیا تم نے آگے چل کر میری بے عزتی نہیں کی ؟”
سکندر نے ادب سے جواب دیا :”نہیں استاد! میں نے اپنا فرض پورا کیا ہے ۔ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے، لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔ ”
5۔ حضرت بہلول رحمۃ اللہ علیہ قبرستان میں رہتے تھے ۔ ایک دن حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے پوچھا : “آپ شہر میں قیام کیوں نہیں کرتے؟”
انھوں نے جواب دیا :”میں ایسے لوگوں کے پاس رہتا ہوں ، جو مجھے تکلیف نہیں پہنچاتے اور جب میں ان سے غائب ہوتا ہوں تو غیبت نہیں کرتے۔”
6۔ ایک زاہد ایک بادشاہ کا مہمان ہوا ۔ جب کھانے کا وقت آیا تو اس نے ضرورت سے بہت کم کھایا ۔ اور نماز پڑھنے میں جلدی کی ۔ تاکہ لوگ اس کے متعلق حد سے زیادہ حسن ِ ظن میں مبتلا ہو جائیں ۔ جب گھر لوٹا تو دوبارہ کھانے کی خواہش ظاہر کی ۔ زاہد کے ذہین لڑکے نے اپنے والد سے پوچھا :”آپ نے بادشاہ کے ہاں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا؟”
انھوں نے جواب دیا :”میں نے ان کے سامنے کچھ نہیں کھا یا ، تاکہ میرا یہ عمل کام آئے۔ لوگوں کی نظر میں میری بزرگی میں اضافہ ہو جائے ۔”
بیٹے نے کہا : “پھر آپ نماز بھی دوبارہ پڑھیے ۔ کیوں کہ آپ نے ان لوگوں کے سامنے ریا کاری والی نماز پڑھ کے گویا نماز نہیں پڑھی ۔”
7۔ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا ، ” حضور ! آپ نے ساری عمر کس طرح بسر کی ؟”
انھوں نے کہا: “چار باتوں میں ۔
(الف) میں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر سے میں ایک لمحہ بھی غائب نہیں رہ سکتا ۔ اس یقین کے بعد مجھے اپنے رب کے سامنے اس کی نافرمانی کرنے سے شرم محسوس ہونے لگی ۔
(ب)میں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ میری قسمت میں جو رزق ہے ، اس کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے ۔ یعنی میرا رزق مجھے ہر حال میں ملے گا ۔ یوں میں اپنے رزق کی طرف سے بے فکر ہوگیا ۔
(ج)میں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ جو فرائض میرے ذمے لگائے گئے ہیں ، وہ میرے علاوہ کوئی ادا نہیں کرسکتا ۔ اس طرح میں میں اپنے فرائض کی ادئیگی میں مشغول ہو گیا ۔
(د)میں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ ایک روز مجھے ضرور مرنا ہے ۔ اور دوسری دنیا میں بہر حال جانا ہے ۔پس میں دوسری دنیا کو اپنے لیے اچھا بنانے کی کوشش میں لگ گیا ۔”
8۔ ایک عقل مند شخص نے کسی سے کہا کہ ہندوستان میں ایک ایسا درخت ہے ، جس کا پھل کھانے سے انسان ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ یہ بات بادشاہ تک پہنچ گئی ۔ بادشاہ نے اس درخت کا پھل لانے کے لیے ایک شخص کو ہندستان کی طرف بھیجا ۔ یہ شخص ہندوستان میں پہنچ کر جس سے بھی اس درخت سے متعلق پوچھتا تو وہ اس کا مذاق اڑا دیتا ۔ آخر سا ل ہا سال کی بے سود محنت کے بعد جب وہ وطن کو لوٹنے لگا تو بوقت ِ واپسی اسے ایک بزرگ ملا ۔ اس نے بزرگ کو سار ا ماجرا کہہ سنا یا ۔ بزرگ نے یہ ماجرا سنا تو ہنس دیے ۔پھر انھوں نے کہا :”یہ درخت صرف علم کی نعمت ہے ۔ علم سے انسان دائمی زندگی پاتا ہے اور بے علم آدمی مردہ ہوتا ہے ۔ ”
تحریر: نعیم الرحمان شائق
ای میل:
shaaiq89@gmail.com