تحریر : سجاد علی شاکر
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کے لئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے ، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھا تاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔معلّمی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔
ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمۖ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا’۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ” استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے”۔علامہ محمداقبال رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں۔
کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور انکو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگذاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگذاری ملک کے معلموں کی کارگذاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسکے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اسکی محنت ہے۔ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے۔لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ نیک بخت اْٹھاتے ہیں۔جنکے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں۔کیونکہ :الادب شجر والعلم ثمر فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔”ادب ایک درخت ہے اور علم اسکا پھل۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟”
خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت سیدنا علی مولود کعبہ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا!”جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے اُستادکا درجہ دیتاہو ں۔ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں کہ”عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائو۔”امام قاضی ابو یوسف رحمة اللہ علیہ:امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد سیدنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کیلئے دعا نہ مانگی ہو۔ہارون الرشید :ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑا ہوجاتا۔درباریوں نے کہا کہ اس سلطنت کا رْعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے۔ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگا۔اس دوران میں عالم صاحب سے پوچھا۔آپ کو معلوم ہے کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے۔عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے۔
اس پر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا۔بلکہ جواب دیا کہ ہاں آپ نے علم کی عزت کیلئے ایسا کیا ہے۔اس نے جواب دیا بے شک یہی بات ہے۔ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کے لئے امام اصمعی کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً انکے پاس جا پہنچا۔دیکھا کہ اصمعی اپنے پائوں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پائوں پر پانی ڈال رہا ہے۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا۔میں نے تواسے آپکے پاس اسلئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے۔آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پائوں دھوئے۔انسان کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور فرض سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم جو کوشش کرتے ہیں اسے تعلیم کہتے ہیں یہ تعلیم روحانی ، ذہنی اور جسمانی ہر طرح کی ہوتی ہے اور اس طرح ہم اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچتے ہیں ۔معاشرتی زندگی کے جن شعبوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان میں حصول علم نہایت نمایاں ہے۔
کیوں کہ تعلیم انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور اْسے معاشرے کا ایک قابل قدر عنصر بنانے میں مدد دیتی ہے، اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول ”استاد” کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ استاد ہی ہے جس نے ایک فرد کی تربیت کی اور اس کی ذہنی نشوونما کا فریضہ سرانجام دینا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ استاد کو معاشرہ میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔معاشرتی خدمات کے عوض معلم کا حق بنتا ہے کہ اسے سوسائٹی میں نہ صرف اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ اس کے ادب و احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ لیکن۔۔۔! یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرے میں استاد کو ملنے والی اہمیت کیا اس بات کی متقاضی نہیں کہ معلم خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرے؟
امام ابو حنیفہ سے ان کے عزیز شاگرد امام ابو یوسف نے پوچھا استاد کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا ”استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے”۔صرف اس فرمان کو سامنے رکھ کر اگر آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھ لیا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبہ اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کبھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔آج ایک پولیس مین کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ افراد پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔لوگ پولیس والے ،مجسٹریٹ،جج اور دیگر افسران کے برابر بیٹھنا اْس کی بے ادبی تصور کرتے ہیں۔لیکن استاد جس کی محنت ،کوشش اور شفقت سے یہ افراد ان بالا عہدوں پر فائز ہیں اْن کی قدر معاشرہ کرنے سے قاصر ہے۔حکومت اساتذہ کو ”سر” کا خطاب دینا چاہتی ہے ،سلام ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے۔مگر افراد کے دل میں حرمت اساتذہ ناپائید ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کا جائزمقام معاشرہ میں بحال کرتے ہوئے حکمران اپنے اسلاف کی زندگیوں سے راہنمائی لیتے ہوئے ان کی معاشی حالت بہتر بنائیں۔اساتذہ کی عظمت معاشرہ میں بحال ہونے سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا اور اساتذہ کی معاشی حالت بہتر ہونے سے اساتذہ اپنے منصب پر فرائض کی انجام دہی پورے لگن سے کریں گے جس سے علمی انقلاب اور ملکی ترقی کی راہیں کھلیں گی۔پاکستان میں اساتذہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہیں۔مطالبات تسلیم نہ ہونے پر تعلیمی بائیکاٹ ہوتا ہے اور سڑکوں پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے ہیں۔
اس احتجاج کو روکنے کے لئے انہی کے شاگردان پر لاٹھیاں برساتے ہیں۔کیا یہی استاد کا مقام ہے؟ حکومت حقوق اساتذہ پورے کرنے کیلئے احتجاج کا انتظار کیے بغیر ان کا معاشی،معاشرتی اور ملی مقام بحال کرنے کیلئے قانون سازی کرے تاکہ ملک و ملت نظریہ پاکستان و نظریہ اسلام کو پروان چڑھاسکے۔اللہ ہم سب کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
تحریر : سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480