تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
یہ گرمیوں کے موسم کی بات ہے جب یہ نوجوان ریڈیو سٹیشن پر پروگرام کر کے واپس آ رہا تھا سڑکوں پر خال خال لوگ نظر آرہے تھے گاڑی کی سپیڈ اچانک معمول سے کچھ بڑھ گئی گاڑی کے ٹائرایک شارٹ کٹ لگا کر دوسری سڑک پر پہنچ گئے۔
ابھی نوجوان اپنے گھر کی سڑک پر رواں دواں ہوا ہی تھا کہ سڑک پر کھڑے ٹریفک سپاہی نے وسل بجا کراسے روکا اور کار چلانے کا لائسنس مانگاتو اس نوجوان نے اْسے بتایا کہ ابھی میرا لائسنس نہیں بنا سپاہی نے چالان پرچی اس کے ہاتھ میں دے کر کہا ٹریفک خلاف ورزی پر آپ کو جرمانہ کیا ہے کسی بھی قریبی ڈاکخانہ میں منی آرڈر کی کھڑ کی پر جمع کروا دیں۔
جرمانہ ہم تک آ جائے گا ۔ چالان کروا کروہ گھر آیا تو اپنے گھر کی مالکن سے کہاکہ میرا چالان ہو گیا ہے یہ سنتے ہی وہ عورت پریشان ہو گئی اور اْس نے یہ خبر اپنی بیٹی اور اپنی بوڑھی ماں کو بتائی تو کچھ دیر میں تینوں ہانپتے ہوئے اس کے پاس آ گئے وہ ڈر گیاکہ ناجانے اس سے کیا غلطی سرزرد ہوگئی ہے بوڑھی ماں نے اس کے کان میں آ کر کہا جو ہو نا تھا وہ تو ہو گیا لیکن اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا محلے داری کا معاملہ ہے اگر اْن کو پتہ چل گیا کہ تمہارا چالان ہوا ہے تو ہماری بڑی رسوائی ہو گی اس نے اْنہیںیقین دلایاکہ محلہ میں کسی کو خبر بھی نہ ہو گی آپ فکر نہ کریں وہ چالان کی پرچی کو بے رخی سے جیب میں ڈال کر سو گیا۔
چالان کی آخری تاریخ گذر گئی اس نے کپڑے بدلے تو چالان کی پرچی انہیں کپڑوںمیں رہ گئی پھر اگلے ہی روز اسے ایک تار ملا اب عدالت کی طرف سے چالان کی رقم کی ادائیگی نہ کرنے پر بلایا گیا تو وہ خوفزدہ ہو گیا دوستوں سے مشورہ کیا تو کسی نے کہا کہ وکیل کر لو کوئی کہنے لگا کہ خود ہی پیش ہو جاؤ تو سب کی متفقہ رائے یہی تھی کہ عدالت کے سامنے اسے خود ہی جانا چاہیے جس دن عدالت نے اسے طلب کیا وہ قانون کے خوف سے مقررہ وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا اچانک اس کی باری آ گئی جج صاحب نے کٹہرے میں کھڑا کیا پوچھنے لگے آپ نے قانون توڑا پھر چلان کی ادائیگی نہیں کی بار بار کی یقین دہانی پر آپ کو نوٹس بجھوائے گئے مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا ہم آپ کو کڑی سزا دیں گے اس غیر ملکی نوجوان نے جواب دیا می لارڈ میں ایک غیر ملکی ہوں اس لیے یہاں کے قانون سے واقف نہیں ہوں ،جج کو غیرملکی کا سلجھا ہوا انداز بھا گیا۔
جج نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں ؟ آپ کا پیشہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا میں ایک ٹیچر ہوں پروفیسر ہوں روم یونیورسٹی میں ابھی یہ الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی کہ وہ جج جو چند لمحے قبل سخت سزا کے لیے کہہ رہا تھا، کرسی کو سائیڈ پر کر کے کھڑا ہو گیا اس نے اعلان کیا ”Teacher in the court” یہ اعلان ہوتے ہی عدالت کا پورا عملہ ٹیچر کی تعظیم میں کھڑا ہو گیا۔یہ روم کی عدالت تھی اور یہ غیرملکی معروف ادیب اشفاق احمد خان تھے انہوں نے یہ واقعہ اپنے گھر آئے ہوئے چند اساتذہ کو سنایا تھا،یقینا سامعین کے دل میں خواہش جاگی ہوگی کہ وہ بھی کسی زندہ معاشرے کا حصہ ہوتے۔۔یہ 2015ء ہے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک عام سی تصویر ہے آئیے اس تصویر کو دیکھنے کی کوشش کریں قدرے چھوٹے قد کے اس بوڑھے شخص کو چار سے پانچ لوگوں نے دبوچ رکھا ہے ،بوڑھے شخص کے بالوں کی سفیدی اور بڑھی ہوئی شیو اس کی بزرگی کے آثار مزید نمایاں کر ہی ہے۔
مجھے اس شفیق انسان سے چند ماہ ہوئی ملاقات یاد آگئی یو کے سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی کرنے والے خواجہ علقمہ بی زیڈ یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر تھے چند دن پہلے نیب نے انہیں لاہور میں بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی کے غیر قانونی کیمپس کی اجازت دینے کے معاملے میں فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا،سابق وی سی خواجہ علقمہ پر الزام ہے کہ انہوں نے سب کیمپس کی سنڈیکیٹ سے منظوری کے بغیر ہی کیمپس کے قیام کی اجازت دے دی،نیب نے موصول ہونے والی شکایات کی بناء پر یہ کاروائی کی مگر عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک معلم سے یہ ذلت آمیز سلوک ہوتے دیکھ کر دل ڈوب سا گیا،فرازنے کہا تھا۔
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
ایک معلم کے جرائم پر نظر ڈالیے جن کا ثابت ہونا ابھی باقی ہے دوسری طرف شاہ رخ جتوئی ہے جس نے ایک ماں کے اکلوتے بیٹے شاہ زیب کو سر عام گولیاں مار کر قتل کر دیا صرف یہی نہیں آپ نے عدالت پیشی کے موقع پر شاہ رخ کی طنزیہ مسکراہٹ دیکھی ہو گی جو پورے معاشرے پر طنز تھا،یہ اس سسٹم پر طنز تھا جہاں معلم جرم کرے تو وحشیانہ ذلت کا شکار بنتا ہے ،یہی کام کوئی بااثر کرے تو عدالت کے باہر اس پر پھولوں کی بارش کی جاتی ہے۔
ذرا ایان علی کا کیس ملاحضہ کیجیے کس شان بے نیازی سے ایک ماڈل کو پیش کیا جاتا رہا،ایک لمحے کے لیے روم کی اس عدالت کا منظر یاد کیجیے،آپ کو اپنے معاشرے کی ناکامی،پسماندگی کی وجوہات سمجھ میں آنے لگیں گی۔سندھ کی بااثر سیاستدان نفیسہ شاہ کے زناٹے دار تھپڑ کی گونج سننے کی کوشش کیجیے جوصرف ایک معلم کے چہرے کو ہی نہیں پورے معاشرے کے چہرے کو سرخ کر گیا تھا۔سوچتا ہوں سیاست کا چلن اختیار کر لیا جائے یا کوئی منافع بخش کام ۔ دل میں اک خواہش سی جاگی تھی،آہ میں ٹیچر بننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
تحریر: فرخ شہباز وڑائچ