تحریر : ریاض جاذب
ڈیرہ غازیخان صحت کی سہولیات کے اعتبار سے شدید نظرانداز ڈویژن ہے۔ ٹیچنگ ہسپتال ڈویژن کے چاروں اضلاع اور بلوچستان، خیبرپختون خواہ کے نزدیکی شہروں کے لیے واحد بڑی سرکاری علاج گاہ ہے۔ مذکورہ ہسپتال کی اپنی حالت زار کا یہ عالم ہے کہ یہاں سہولیات کے نام پر مریضوں کے تماشا ہو رہا ہے۔ ہسپتال کے کارڈیالوجی وارڈ کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں کارڈیالوجی وارڈ میں لائے گئے ایمرجنسی مریضوں میں90 سے80 فیصد کو ملتان کے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں ریفر کیا گیا ہے۔
کارڈیالوجی وارڈ کے ہیڈ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمن موصوف نے اوٹ ڈور دیوٹی دینا گوارہ نہیں کرتے وہ جب سے اسسٹنٹ پروفیسر بنے ہیں اوٹ ڈور تو درکنار وارڈ میں بھی مریضوں کو چیک کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ حال ہی میں تعینات ڈاکٹر راشد منیر جوکہ وارڈ کے سینئر رجسٹرار ہیں کی بھی اوٹ ڈور ڈیوٹی نہیں لگانے دیتے اور خود بھی یہ ڈیوٹی نہیں دیتے جبکہ ڈیوٹی روسٹرپر ان کی ہفتہ میں دودن کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے اوٹ ڈور میں ان سمیت تین ڈاکٹرز کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے مگر ڈیوٹی صرف ایک ڈاکٹر جوکہ کارڈیالوجسٹ بھی نہیں صرف MO ہیں ڈاکٹر اسلم ملک سے پورا ہفتہ لی جاتی ہے۔ MO ڈاکٹر اسلم ملک کی بھی شہرت
اچھی نہیں موصوف کے ریکاڑد سے یہ پتہ چلا ہے کہ دل کے امراض وہ بھی ایمرجنسی مسائل سے نمٹنے کی مہارت نہیں رکھتے اس لیے ان کی تعیناتی کے دوران سے اب تک ایسے مریضوں خاص طور پر ایمرجنسی کے مریضوں میں سے بیشتر سے زائد مریض صحت یاب ہونے کے بجائے مناسب کیئر نہیں ہونے سے مرجاتے ہیں۔ کارڈیالوجی وارڈ میں ہیڈ انچارج ڈاکٹر اسسٹنٹ پورفیسر وزٹ کرنے نہیں آتے اس لیے ان کا کمرہ بند ہی رہتا ہے۔ اصولی طور پر پورے کارڈیالوجی وارڈ کو ایمرجنسی قرار دیا گیا ہے جہاں ہر وقت ماہر ڈاکٹر و عملہ کا ڈیوٹی پر رہنا لازمی ہے مگر یہاں کی صورت حال یہ ہے کہ سرے شام سے رات گئے اور صبح دس بجے تک یہاں ایک بھی ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتا اوردیگر عملہ بھی اکثرغائب رہتا ہے۔
چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے ماہر ڈاکٹر کا ملنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن ہے۔ وارڈ کی عمارت کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ عمارت صحت صفائی کے حوالے سے انتہائی بری ہے۔ وارڈ میں ائرکنڈیشنر چالو حالت میں نہیں اور دیگر سازوسامان بھی یا تو نا پید ہیں یا پھر سرے سے نہیں ہیں۔ واڑڈ سمیت پورے ہسپتال کی مینجمنٹ ایم ایس کے پاس ہے مگرایسا کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ ایم ایس ڈاکٹر موسیٰ کلیم کے پاس مینجمنٹ ہے۔ ڈاکٹرتو درکنار، وارڈ سرونٹ پرتک ان کا کنٹرول نہیں۔
ڈیرہ غازیخان سمیت پورے جنوبی پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کے برے ہونے کا اعتراف تو خود خادم اعلی پنجاب نے بھی اس وقت کیا تھا جب وہ برادراسلامی ملک ترکی کی جانب سے بنائے گئے ہسپتال کے افتتاح کے روز مظفر گڑھ میں موجود تھے مگر کیا وجہ ہے کہ ڈیرہ غازیخان سمیت تمام ہسپتالوں کی حالت زار کو بدلا نہیں جا سکا۔
صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے اور ریاست یہ ذمہ داری پوری کرنے میں اگر ناکام ہے تو اس میں دو بڑے عنصرہیں ایک وسائل کی عدم دستیابی اور دورسرا ،ادارتی چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا محکمہ جاتی ذمہ داران کی جوابدہی کا نہ ہونا شامل ہے۔ ڈیرہ غازیخان کے ڈی ایچ کیو کو ٹیچنگ ہسپتال تک ترقی اور اس کا افتتاح تو خود خادم اعلی پنجاب نے کیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اس کا فالواپ بھی لیں۔
عوام کے لیے درد سر بنے ہوئے لوگوں کا محاسبہ کیا جائے۔ اگر آپ کے ہسپتال اچھے نہیں تو پھر اچھی سڑکوں اچھی ٹرانسپورٹ کا بھی کوئی فائدہ نہیں یہ اچھی سڑکیں اچھی ٹرانسپورٹ بھی لازمی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری عوام کی صحت ہے جس کو بڑے خطرات لاحق ہیں ۔پورے جنوبی پنجاب کے لیے صحت کی سہولیات کے لیے اس بجٹ جتنی رقم رکھی گئی ہے وہ لاہور کے ایک کلومیٹر روڈ کے تخمینہ سے بھی کم ہے۔
تحریر : ریاض جاذب