تحریر: شاہ فیصل نعیم
بادشاہی مسجد مغلیہ دور کے نوادرات میں سے ایک شہکار کی حیثیت رکھتی ہے جہاں ہر روز سینکڑوں لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں اور اس فن پارے کے تخلیق کاروں کو دادِ تحسین پیش کرتے ہیں اس کے قرب وجوار میں جہاں مغلیہ دور کی بہت سی یادیں بکھری پڑی ہیں وہاں آپ کو دو درگاہیں بھی ملیں گی۔ اگر آپ بادشاہی مسجد کے مرکزی دروازے سے باہر نکلیں تو دائیںطرف شاعرِ مشرق، مریدِ رومی، سوزِملت رکھنے والے درویشِ لاہوری اور قلندرِ سیالکوٹی کا مزارِپُر انوار ملے گاجہاں ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے بڑی بڑی ہستیاں عقیدت کے پھول نچھ اور کرنے کے لیے یہاں قدم رنجا فرمانا اپنے لیے باعثِ صد افتخار سمجھتی ہیں۔
اب اگر مسجد کے مرکزی دروازے سے بائیں جانب دیکھیںتو ایک مزار وہاںبھی ملے گاچاہے رت اور زمانہ وہی ہو لیکن سماں کچھ اور ہوگایہاں پر لوگ خریدوفروخت ،کھانے پینے ،غل غپاڑہ اُڑانے اور عاشقی معشوقی میں مست نظر آئیں گے کوئی ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتاہو انظر نہیں آئے گا۔اردگرد پڑا ہوا کوڑا کرکٹ تو دور کی بات سردار ا سکندرحیات خان کی مرقد پر پڑی ہوئی خاک بھی کوئی صاف کرتا ہوا نظر نہیں آئے گایہ وہ لوگ تھے جو لوگوں پر حکومت کرتے تھے جیسے ہی ان کا تختہِ اقتدار اُلٹا لوگوں نے انہیں فراموش کردیا۔اقبال کے مزار پر کیوں آج بھی گہماگہمی ہے؟کیوں لوگ لمبے لمبے سفر طے کرکے یہاں آتے ہیں؟اس لیے کے اقبالکی حکمرانی لوگوں پر نہیں دلوں پر تھی اس لیے اقبال کانام آج بھی زندہ ہے اور رہتی دنیا تک زندہ رہے گامتلاشیانِ علم چشمہِ فیض سے فیض پاتے رہیں گے اور لوگوں کے من روشن ہوتے رہیں گے۔
یہ تو ایک کہانی ہے ایسی کئی کہانیاں تاریخ کے سینے میں رقم ہیں ۔اگر ہم آخری آرام گاہوں کا رخ کریں تو پتہ ملے گا کہ کتنے کتنے ما جبیںجو اس دھرتی کا جُھومر ہوا کر تے تھے جن کے ایک اشارے پر تاریخ رقم ہوتی اور بدلتی تھی، جن کے چڑھتے شباب کے آگے کوئی ٹھہر ناپاتا تھاجو اپنے بد ن پر ذرہ برابر مٹی بھی نہیں پڑنے دیتے تھے ،جن کے لیے ریشم کے نرم وگداز بستر،مشک و امبر سے مہکتے ہوئے محلات، زیب تن کرنے کے لیے اعلیٰ ملبوسات اور خدمت گزار غلام نازونخرے اُٹھانے کے لیے سر جُھکائے کھڑے رہتے تھے۔جن کی محفلیں شراب و کباب اور اُبھرتے شباب سے مزین ہوتی تھیں آج ان کا حال دیکھو ان کی کہانی سنو جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے آج ان کے کفن بھی تارتارہو چکے ہیں کئی لوگوں کا نام تو دور کی بات نشان تک باقی نہیں رہا۔
اگر آپ کبھی مقبرہ جہانگیر پر جائیںتو آپ کو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملے گا۔ویسے تھوڑی دیر کے لیے سوچئیے کیسی نازونعم کی زندگی گزاری ہو گی شہنشاہ نے لیکن پھر وقت نے اُس کے ساتھ بھی وہی کیا جس سے کسی کو بھی معافی نہیںہے وقت پھر اُسے اصل کی طرف لے آیا تھا اُس کی خاک اُسی مٹی میں ملا دی گئی تھی جہا ں سے اُس کا خمیر اُٹھایا گیا تھا۔مقبرے میںآپ کو تاش کھیلنے والی ٹولیا ں ملیں گی ، جانوروں کی گندگی پڑی ہوئی نظر آئے گی ، لوگ گھومتے پھرتے نظر آئیں گے، ڈیٹس پر آئے ہوئے جوڑے دیکھنے کو ملیں گے ،پکنک پرآئے ہوئے لوگ تو ملیں گے پر شاید ہی کوئی ایسا ملے جو یہا ں برصغیر کے مطلق العنان حکمران کے لیے دست ِدعا دراز کئے ہوئے ہو۔ اس سے بھی اگر دل مطمن نا ہو یا دل میں کوئی خلش باقی ہو تو فیصل مسجد کی طرف آئیںیہا ں پر بھی ایک غمناک داستان آپ کی منتظر ہو گی یہاں پر بھی وہی منظر ہو گا کوئی نہیں گاجو صرف دعاکے لیے آیا ہو۔اس قوم سے تو شکو ہ کیا کرنا آپ کو صاحبِ مرقد کے اہل وعیا ل میں سے بھی شایدہی سال میں ایک مرتبہ کوئی دعا مانگنے والا ملے۔
بدلتا ہے رنگ آسما ں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نا گورِ سکندر نا ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اگر کوئی جاننا چاہے تو مناظر اور داستانیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔اب ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟دیکھو صاحبو!اگر آپ کے دورِاقتدارمیں غریب کو دو وقت کی روٹی تک میسر نا ہو اور تمہارے محلات میں پلنے والے کتے بھی نازونعم سے جی رہے ہوں اور اشرف المخلوقات بلک بلک کر جان دے دے اور غریب کے گھر میں موجود متاع گرانمایہ اس کی بیٹی کی آبرو تک محفوظ ناہواور جہاںلوگ پستی کی حالت میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہوں ان سے آپ امید کرسکتے ہیں کہ یہ مرنے کے بعد آپ کی لحد پر پھول ڈالنے،دعامانگنے ،دیا جلانے یا آنسو بہانے آئیں گے۔۔۔۔۔؟؟صاحبو!کوئی نہیں آئے گا کوئی آنسو بہانے نہیں آئے گا۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم