تحریر: شاہ بانو میر
بھلے وقتوں کی بات ہے کہ چھوٹے چھوٹے کچے گھروں میں اکثریت قیام پزیر تھی کچے صحن پر ڈالے گئی شام ڈھلے پانی کو سوندھی خوشبو پاکستان کے علاوہ شائد ہی کسی اور پاک مٹی کے نصیب میں ہو شام سے پہلے لوگوں کی بڑہتی ہوئی چہل پہل اورکچھ دور برگد کے کسی گھنے بوڑھے پیڑ کے نیچے بٰیٹھ کر عزتوں کے معاملات کو رشتوں میں پرونے والے پنچائیتی اراکین دولت کی نمائش سے کوسوں دور تھے ‘ بان کی بُنی ہوئی کھردری چارپائی پر سفید براق چادر ڈالے اور لشکتے چمکتے گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے گاؤں کا بڑا جس کا ہر فیصلہ قبولَ عام تھا کہ تب بریف کیس نہیں چلتے تھے۔
کسی ایک گھر میں ماتم ہوتا تو تو پورا گاؤں سوگوار ہوتا فضا میں رقت پائی جاتی تھی اور لوگوں کے چہرے غم وحزن کا شکار دکھائی دیتے تھے ‘سانجھ کا زمانہ تھا رکھ رکھاؤ سادہ مگرصفائی کا اعلیٍ معیار رکھتا تھا ‘ فکر اورپریشانی نہیں تھی غذا سادی تھی مگر چہرے چمکتے تھے خون چھلکتا تھا ان الہڑ مٹیاروں پر جن کے پاس کھانے کیلئے صرف چٹنی اچار مرچ ہوتی تھیں یہ سرخی غذا سے نہیں خوشی سے بے فکری سے بے خوفی سے ملتی ہے ‘ صبح تڑکے منہ اندھیرے مرغ کی بانگ اذان کے ساتھ ہی فضاکو جگا دیتی اور سارے گاؤں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ‘ دھواں اٹھتے کچے گھر اور بچوں کے رونے کی آوازیں کہیں ٹن ٹن کرتے بیلوں کے گلے کی گھنٹیاں بتا دیتیں کہ بیل کو جوتا جا رہا ہے کھیت میں ہل چلانے کی تیاری شروع ہو گئی مکھن خشک روٹیوں کو ملائم بنا کر ساتھ چھاچھ ملی لسی ہر صبح وہ فرحت بخش ٹھنڈا ناشتہ جو تپتے سورج کی گرمی کو بھی ٹھنڈا رکھتا تھا۔
زندگی کا آغاز اذان اور نماز سے اس کے بعد گھر کی بڑی بوڑہیاں اپنی اپنی چارپائیوں پر بیٹھ کر اس کتاب رحمت کو کھول کر دن تڑکے تک پڑپتیں اور اپنی سادہ سی زبان میں سادہ انداز میں اپنے اللہ سے ساری تکلیفیں بیان کر کے پرسکون ہو جاتیں اتنے میں گھر میں موجود پوتا یا پوتی پلیٹ میں روٹی اور لسی کا گلاس لاتے تو ڈہیروں دعائیں پاتے یہ تھی ہماری بنیاد جو آج شہروں میں تو ناممکن گاؤں میں بھی نہیں پائی جاتی آج ہر کسی میں احساس کی کمی کا رونا دوسرا تو روتا ہے لیکن اپنے اندرکی بے حسی ہم میں سے کسی کو دکھائی نہیں دیتی انسانیت کو مصنوعی معاشرے نے بے مقصد مقابلے کی دوڑ نے مردہ انسان زندہ صورت میں بھاگتے دکھا دئیے کبھی ایک ساتھ کندھا مل کر کھڑے ہونے والے غیر کیا اپنے کیا سب کے سب ایک دوسرے پے سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔
کاروبار ہے مقام ہے رشتے داری ہے ادارے ہیں ایک احمقانہ دوڑ کا ہم سب اس لئے شکار ہیں کہ اصل مقصد بھول گئے دینے والے ہاتھ لینے والی قوم کی مانند دکھائی دیں تو یہی ہوتا ہے آج کسی کا درد سانجھا درد نہیں ہے بلکہ اسکا اپنا انفرادی فعل ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے رویے خوفزدہ کر دئیے پہلے حاصل کرنے کا جنون بعد میں سنبھالنے کا خیال اور اس کے بعد نقصان کا ڈر ہمیں دوسروں سے بیگانہ کر گیا اپنی دھن اپنا ڈر اپنی دوڑ کا غلام آج کا انسان اتنا بے حس ہے کہ دوسرا مرتا ہے تو سکون کا لمبا سانس لیا جاتا ہے کہ میں اور میرے اہلَ خانہ تو محفوظ ہیں۔
یہی بے حسی ہے جو ہمیں برما شام مصر بوسینیا فلسطین کشمیر کی آہ و بکاہ سننے سے محروم رکھتی ہے مفادات کے بھرے ہوئے بریف کسی ہماری زبانوں کو چُپ کے تالوں سے پابند کر گئے
مصلحت تو امتَ مسلمہ کا شیوہ نہیں تھا حق پر ڈٹ جانا ان کا وطیرہ تھا مظلوم کی فریاد پر درس و تدریس کو نا مکمل چھوڑتے ہوئے محمد بن قاسم وہی وقت تھا جب نکل کر ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچاتا تھا اب تو ساز باز کر کے عزتوں کی نیلامی کر کے خود کو جدید دور کا مصلحت پسند سلجھا ہوا انسان ثابت کیا جاتا ہے یہی تو وجہ ہے کہ امتَ اسلامیہ کا آج جو حال ہے لاکھوں کے بہتے آنسو اور لاکھوں کی تذلیل آمیز یورپین ممالک میں آمد آسائشات کے حصول کیلئے داخل ہوتے دیکھ کر دیکھنے والوں کو خون کے آنسونہیں رلاتی ہے کیونکہ ان کے اپنے ملک میں ان کے اپنے حکمران نے ان کو خون کے آنسو رلا کر بے حس کر چکے۔
آج اتنے صدمے اتنے غم امتَ مسلمہ کے پاس ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی بنی اسرائیل نے اللہ کی نعمتوں کے انکارکیا اور کہا من و سلویٍ کے علاوہ زمینی اشیاء کیلئے موسیّ سے اصرار کیا تو اللہ پاک نے انہیں برملا کہ دیا کہ تم اعلیٍ کے بدلے حقیر چاہتے ہو تو پھر ذلت اور رسوائی انہیں دی گئی شائد آج یہی ہمارا حال ہے کہ ہمیں شکر کرنا بھول گیا ناشکری کا اعلان کرتی آج مات مسلمہ تعلیم سے یوں کوسوں دور ہے جسیے کوئی اچھوت کی بیماری ہو شعور تعلیم سے آتا ہے احساس اندر جاگتا ہے دوسروں کا درد تعلیم محسوس کرنا سکھاتی ہے سوچ کو بڑا کر کے اپنی ذات کو منفی اور دوسروں کو جمع کرتے ہوئے ضرب کا عمل شروع ہو کر کامیابی کا سفر کشادہ شاہرہ پر شروع کیا جاتا ہے۔
مگر افسوس کہ سخت پتھر دل لوگ اور اپنی اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے یہ گروہ در گروہ احساس کو ختم کر چکا ورنہ کیسے ہو سکتا تھا کہ مسلمان حکمرانوں سے لے کر سپہ سالاران تک اور پھر نیچے عام عوام میں سے کوئی بھیان بہتے آنسوؤں کو نہ سمجھ سکے ان کا کرب درد نہ جان سکے؟ سربراہ کسی بھی ادارے کا جتنا اعلیٍ صفات کا حامل وگا معاشرہ قوم اتنی ہی لاجواب ہوگی آئیے سوچیں مل کر کہ آخرآنسو بے وجہ تو نہیں نکلتے لاکھوں آنکھیں بہہ رہی ہیں اور ہم سمجھ نہیں پا رہے مگر ہر آنسو کے پیچھے کوئی درد کا عنوان ہے؟ کوئی تکلیف اور کرب ہے اور اگر ہم باشعور ہوتے تو جانتے کہ ہر آنسو ایک سبق نہیں مکمل کتاب ہے۔
تحریر: شاہ بانو میر