لاہور: ڈومیسٹک کرکٹ سے چھیڑ چھاڑ سابق اسٹارزکو بھی کھٹکنے لگی۔
ڈومیسٹک کرکٹ کیلیے نئے مجوزہ پلان میں فرسٹ کلاس کی8ریجنل ٹیمیں منتخب کرتے ہوئے 20رکنی اسکواڈ کے12کرکٹرز پی ایس ایل کی طرز پر ڈرافٹ سسٹم کے ذریعے لیے جائینگے، ریجن سے ملحقہ شہروں سے صرف 8کھلاڑیوں کا براہ راست انتخاب ہوگا، یوں علاقائی ٹیموں میں زیادہ کھلاڑی دیگر علاقوں کے ہونگے، یوںکسی ریجن کے تحت ڈسٹرکٹس اور زونز سے سامنے ہونے والے کرکٹرز کیلیے مواقع بہت کم رہ جائیں گے، بیشتر کھلاڑی، کئی ریجنل صدور اور کوچز بھی سسٹم سے متفق نظر نہیں آتے،سابق کرکٹرز کی طرف سے بھی ڈرافٹ سسٹم کی مخالفت سامنے آئی ہے۔
سابق کپتان جاوید میانداد نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی سی بی میں کرکٹ کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو کھیل کی بنیادی چیزوں سے واقف نہیں،کئی کرتا دھرتا تو ایسے ہیں جنھوں نے بیٹ اور بال پکڑ کر بھی نہیں دیکھا،کئی 1، 2 انٹرنیشنل میچز کا تجربہ رکھنے کے باوجود مستقبل کے اہم فیصلے کررہے ہیں،ریجنل ٹیموں کو بھی ڈرافٹ سسٹم کی بھینٹ چڑھانا ہے تو انھیں بند ہی کردیں،کسی کو مالی فائدہ پہنچانے کیلیے ریجنل اسکواڈ میں شامل کرنے کا رجحان فروغ پائے گا تو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت کرکٹرز کی حق تلفی ہوگی۔
سابق چیف سلیکٹر محسن حسن خان نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں پیسہ لانا بُری بات نہیں، حفیظ کاردار نے ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں بنائیں تو مجھ سمیت درجنوں کرکٹرز کو اپنے کیریئر جاری رکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملا،ریجنز کی ٹیموں کو مضبوط بنانا ہے تو کھلاڑیوں کو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کھیلنے والوں کے قریب تر معاوضے دیے جائیں،اس کیلیے اسپانسرز حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
محسن خان نے کہا کہ پی سی بی کے پاس بھی مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں،اگر چاہے تو ریجنز کو اتنا سرمایہ فراہم کرسکتا ہے کہ وہ اپنے تحت کھیلنے والے کرکٹرز کو معاشی طور پر آسودہ بنا سکیں۔انھوں نے کہا کہ ڈرافٹ سسٹم کے ذریعے بڑے شہروں میں بہتر سہولیات سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ کرکٹرز کو مواقع ملیں گے لیکن دیگر علاقوں میں موجود کھلاڑیوں میں مایوسی کی فضا پیدا ہوگی،کسی پلیئر کو اپنے ہی ریجن کی طرف سے مسابقتی کرکٹ میں شرکت کا موقع نہیں ملے گا تو وہ کہاں جائے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کرکٹر قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا،تاہم باصلاحیت کھلاڑیوں کو اس کو آگے بڑھنے کے مواقع اور کم از کم معاشی تحفظ ہی مل جائے تو نئے آنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی۔ سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ ڈپارٹمنٹس کی طرح ریجنز کو بھی مضبوط بنانا ضروری ہے لیکن اس کا طریقہ کار ایسا ہونا چاہیے کہ کسی ریجن سے تعلق رکھنے والا کرکٹر بھی محرومی کا شکار نہ ہو، دوسری صورت میں اچھا کھلاڑی معاشی تحفظ کیلیے ڈپارٹمنٹ کی طرف جانے کی کوشش کرے گا اور ریجن میں دوسرے درجے کے پلیئرز رہ جائیں گے۔