تحریر: پروفیسر مظہر
امریکی صدر بارک اوباما کی نئی دہلی آمد سے پہلے کتوں، بندروں اور”گئو ماتاؤں” کی شامت آگئی۔ کتے اور بندر تو دہلی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے تھے لیکن بارک اوباماکے دَورے کو بہانہ بناکر بھارتی حکومت نے اُن سے یہ جاگیر چھیننے کی کوشش کی حکومتی اہلکار پوری دہلی میں اُن کا پیچھا کرتے پائے گئے لیکن وہ بھی ایسے ”مستقل مزاج” کہ کہیں نہ کہیں سے سَرنکال بیٹھتے اور حکومتی ہرکارے بیچارے اُن کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوجاتے۔ البتہ گائے ٹھہری شریف جانور اِس لیے تمام گئو ماتائیں” اپنے بال بچوں سمیت انتہائی شرافت سے دِلی سے ہجرت کر گئیں۔
کتے اوربندر شائد امریکی صدرکی ”دہشت ”سے ناواقف تھے اِس لیے دہلی چھوڑنے کی بجائے کونوں کھدروں میں گھُس گئے ۔ ایک کتا تواتناپُرعزم ، دلیر لیکن”مخولیا”تھاکہ ” راشٹریہ پتی بھون ”میں امریکی صدر کو گارڈ آف آنرپیش کیے جانے کے موقعے پر وہ بھی سلامی لینے آن پہنچا ۔سوشل میڈیاپر یہ بحث جاری ہے کہ وہ محفل بارک اوباما کے لیے سجائی گئی تھی یا کتے کے لیے ۔ویسے حیرت ہوتی ہے
پورے دہلی کو توآسمانوںسمیت بند کر دیا گیا، تین دنوںکے لیے دلی کو ”نو فلائی زون”قرار دے دیاگیا ،80 ہزار اہلکار اوباماکی حفاظت پرمامور اور پوری دہلی میں” سی سی ٹی وی ”کیمروں کی بھرمار ،پھروہ کتا سب کی نظروں سے بچ کر راشٹریہ پتی بھون پہنچ کیسے گیااور وہ بھی عین اُس وقت جب اوباما گارڈآف آنر کا معائنہ کر رہے تھے ؟۔اگر یہ شرارت تھی تویقیناََ پاکستان نے ہی کی ہوگی لیکن تاحال انڈین سکیورٹی ایجنسی ”را”نے اِس قسم کاکوئی بیان جاری نہیں کیا، ہوسکتا ہے اوباماکی واپسی کا انتظارہو۔
بارک اوباما جب اربوںڈالرز کے معاہدوںکی گٹھری سرپر رکھ کر نئی دہلی ایئر پورٹ پراُترے تو نریندر مودی بنفسِ نفیس اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ اوباما ،مودی کے قریب پہنچے ،دونوں کی آنکھیںچارہوئیںاورپھر مودی صاحب نے آگے بڑھ کراُنہیں ایسی جادوکی ”جپھی”ڈالی کہ اوباما نہال ہوگئے ۔ایک کمی البتہ ضرور محسوس کی گئی کہ امریکی خاتونِ اوّل مشعل اوباما تووہاں موجود تھیں لیکن اُن کے استقبال کے لیے بھارتی خاتونِ اوّل یشودابین مودی کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ جب یشودابین سے رابطہ کیاگیا تو اُس نے شکوہ کرتے ہوئے کہا”مجھے پتہ ہے
جب اوباماکا استقبال ہورہا تھا تب مجھے بھی دہلی میں ہوناچاہیے تھا مگرصاحب (مودی) نے بلایاہی نہیں۔ یشودابین بیچاری سُرخ ساڑھی پہن ،سج سنورکر گجرات میں اِس اُمید پر بیٹھی رہی کہ شائد پچاس سال بعد ”اپنے میاں”سے ملاقات ہوجائے ۔وہ کہتی ہیں”وہ اگرمجھے آج بلائیں گے تومیں کل پہنچ جاؤں گی لیکن میںپہلے کبھی نہیں جاؤںگی ۔یہ میری عزتِ نفس کامعاملہ ہے اِس سے پیچھے نہیں ہٹوںگی ۔ہم دونوںکے درمیان مرتبے یاحیثیت کی کوئی بات نہیں ،ہم دونوں انسان ہیں”۔بیچاری یشودا نہیں جانتی کہ نریندر مودی جیسے انسان تو ویسے ہی لازمۂ انسانیت سے خالی ہوتے ہیں،اُن کے ہاتھوں سے ابھی تک گجرات کے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا خون ٹپک رہاہے
وہ بھلا گجرات کے دوردراز گاؤںکی یشودا کا درد کیا جانیں۔ اُنہیں تو یشودا اُس وقت اچھی لگتی ہوگی جب وہ خود چائے بیچا کرتے تھے۔ اب وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سربراہ ہیں، اُنہیں بھلا یشودا کہاں یاد ہوگی۔ویسے امریکی صدر سے یہ سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ وہ جو پاکستانی NGO’s کی خواتین کو”اندر کھاتے”پیسے دے کر”مولویوں”کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں ،کیااُنہیں یشودابین نظر نہیں آتی ؟۔خواتین کے حقوق کے علمبردار اہلِ مغرب یوں تو آزادیٔ نسواںاور حقوقِ نسواںکا بہت ”رَولا”ڈالتے رہتے ہیں لیکن پچاس سال سے اپنے میاں کے انتظار میں نظریں بچھائے ”یشودا” پہ اُن کی نظرکیوں نہیں پڑتی ؟۔حقیقت یہی ہے کہ جہاں اہلِ مغرب کو اپنے مفادات نظر آتے ہیں وہیں اخلاقیات کے سارے درس بھی سامنے آجاتے ہیںاور جہاں اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہووہاں کیسی اخلاقیات اور کہاں کی اخلاقیات۔
ہندوستان کے صدارتی محل میں امریکی صدرکے اعزاز میں دی جانے والی دعوت دنیا کی سب سے بڑی دعوت تھی۔ اِس عشائیے میںانواع واقسام کی 36 ڈشزز تیار کی گئی تھیں اور ہاضمے کے لیے ”ہَربل چائے”بھی۔ نریندر مودی صاحب نے امریکی صدر پر ”رعب شعب”ڈالنے کے لیے 36 لاکھ روپے کاسوٹ سلوار کھا تھا جس پرسونے کی تاروں سے اُن کانام بھی لکھا ہوا تھا۔ دعوت میں کُرتوں کی بھرمار دیکھ کر اوباما صاحب نے کہا”میں بھی کُرتا پہننے کا سوچ رہا تھا۔دروغ بَرگردنِ راوی ،اُنہیں مشعل اوباما نے کُرتہ پہننے سے روکا کیونکہ مشعل کے خیال میں کُرتہ پہن کر جنابِ اوباما امریکی صدر نہیں”کچھ اور”ہی لگتے۔ سوال مگریہ ہے کہ وہ جو بھارتی حکومت نے امریکی خاتونِ اوّل مشعل اوباما کے لیے کروڑوں کی مالیت کی 100 ساڑھیاں بنوا رکھی ہیں، مشعل اُنہیں پہن کر کیسی لگیں گی؟۔اگر مشعل یہ ساڑھیاں نہیں پہنتیں تویہ بھارتی تحفے کی تو ہین ہوگی اور اگر پہنتی ہیں تو امریکی ”خاتونِ اوّل ” وہ بھی نہیں لگیں گی ۔اِس لیے کہاجا سکتاہے کہ ساڑھیوں کے اِس تحفے نے مشعل کو ”وَخت”میں ڈال دیا ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے اپنے ابتدائی الفاظ ادا کرتے ہوئے ہندی میں کہا ”میرا سب کو پیاربھرا نمسکار”۔اِس نمسکار کے بعد اُنہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی پر تمام بھارتی مطالبات تسلیم کرلیے اور جوہری مواد کی نگرانی کے مطالبے سے دستبرداربھی ہوگئے ۔دونوں ممالک میں دفاع ،تجارت ،ماحولیات اور دیگر شعبوں میں تعاون کے معاہدے بھی ہوئے اورامریکہ نے بھارت کوسرمایاکاری اورقرضوں کی مَدمیں چارکھرب روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔
امریکی صدر نے اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہاکہ امریکہ سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کرتا ہے۔ اِن اعلانات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ”ہندولالے” کاواسطہ ”امریکی لالے”سے پڑگیا ہو کیونکہ جوہری موادکی نگرانی عالمی نیوکلیئر واچ ڈاگ IAEA کے سپرد ہے جس کے لاء میں ایسی کوئی گنجائش نہیں۔ بھارت کا سلامتی کونسل کا رُکن بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، یہ محض بھارت کے لیے امریکہ کی طرف سے ”لولی پاپ” ہے
کیونکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹرکے آرٹیکل 23 میں سلامتی کونسل میں تو سیع کی کوئی گنجائش نہیں۔ بھارت کو چھٹا مستقل رُکن بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی اوریہ ترمیم اکثریتی رائے سے نہیں بلکہ تمام (193 ) رُکن ممالک کے متفقہ فیصلے سے ہی ممکن ہے۔اگر ایک رکن ملک بھی مخالفت کردے تویہ ترمیم ممکن نہیں ہوسکتی۔ اگرہم ایک لحظے کے لیے یہ تسلیم کرلیں کہ یہ ترمیم ممکن ہے تو پھر بھی پاکستان کو ”آئرن برادر”قرار دینے والا ہمارا قابلِ اعتماد دوست چین ،اِس کو ویٹو کردے گا۔ رہی چار کھرب امداد کی بات تو سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ ایک روپیہ دے کر ایک ہزار نکلواتا ہے اِس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت کِس کی ہوتی ہے، ہندولالے یا امریکی لالے کی۔
تحریر: پروفیسر مظہر