وزیر اعظم پاکستان شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں تحریک ختم نبوت کے کامیاب اختتام اور صدی کے سب سے بڑی فتنے کا عبرتناک انجام، اس کامیابی پر تحریک ختم نبوت کے تمام جانثاروں شہیدوں اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا کوثر نیازی، مولانا مفتی محمود اور تمام گمنام کارکنوں کو سلام پیش کرتے ہیں،
جون30 1974کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی قرارداد پیش کی جس پر مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفی الازھری، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، چوہدری ظہور الٰہی، شیر باز خان مزاری، مولانا محمد ظفر احمد انصاری، احمد رضا قصوری، مولانا نعمت اللہ، سردار شوکت حیات، علی احمد تالپور اور رئیس عطاءمحمد خاں مری سمیت چالیس کے قریب ممبرانِ اسمبلی نے دستخط کیے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ قادیان کے آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی آیات کا تمسخر اڑایا۔ جہاد کو ختم کرنے کی مذموم کوششیں کیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیت سامراج کی پیداوار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا ہے۔ قادیانی مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ لہٰذا اسمبلی مرزا قادیانی کے پیروکار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر آئینِ پاکستان میں ضروری ترمیم کرے۔
5اگست 1974کو صبح دس بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا کوثر نیازی سمیت پوری کابینہ نے شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد قادیانی جماعت کے وفد کو جس کی سربراہی قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کر رہا تھا، بلایا گیا۔ اسمبلی میں طے پایا گیا کہ کوئی رکن قومی اسمبلی براہِ راست مرزا ناصر سے سوال نہ کرے بلکہ وہ اپنا سوال لکھ کر اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو دے دے جو خود مرزا ناصر سے اس بارے میں دریافت کریں گے۔ دنیا کی تاریخ میں جمہوری نظامِ حکومت کا یہ واحد واقعہ ہے کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے قادیانی مذہب کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کے سربراہوں کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بلایا گیا۔ تعارفی کلمات کے بعد اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے قادیانی عقائد پر بحث شروع کی تو مرزا ناصر نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طورپر آزادی اظہار حاصل ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اسلام کے بنیادی ارکان اور قرآنِ مجید کی متعدد آیات کا بھی منکر ہے تو کیا اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس پر مرزا ناصر مختصر خاموشی کے بعد بولا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں غیرمسلم اقلیت قرار دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی قرار دیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم کسی کافر قرار نہیں دیتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر کو اس کے دادا (آنجہانی مرزا قادیانی) اس کے والد (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود) اور اس کے چچا (مرزا بشیر احمد ایم اے) کی اپنی تحریریں پڑھ کر سنائیں :
اور (جو) ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔(انوارِ اسلام صفحہ30مندرجہ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 31 از مرزا قادیانی)
جو میرے مخالف تھے، ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔ (نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ4 مندرجہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 382 از مرزا قادیانی)
تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبة والمودة وینفع من معارفھا ویقبلنی و یصدق دعوتی۔ الا ذریة البغایا
میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر کنجریوں (بدکار عورتوں ) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ547،548 مندرجہ روحانی خزائن جلد5 صفحہ547،548 از مرزا قادیانی)
العدا صاردا خنازیر الفلا
و نساءھم من دونھن الاکلب
دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بڑھ گئی ہیں ۔ (نجم الہدیٰ صفحہ53 مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 از مرزا قادیانی)
ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰؑ کو نہیں مانتا یا عیسیٰؑ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعودؑ کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمة الفصل صفحہ110 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
اب معاملہ صاف ہے، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعودؑ کا انکار بھی کفر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعودؑ کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول حضرت مسیح موعودؑ آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے، آپ کا انکار کفر نہ ہو۔ (کلمة الفصل صفحہ146،147 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے۔(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 519 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (آئینہ صداقت صفحہ35 مندرجہ انوارالعلوم جلد 6 صفحہ 110 از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا قادیانی)
جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 280 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
ان حوالہ جات پر مرزا ناصر نہایت شرمندہ ہوا۔ پھر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ جب آپ کا نبی الگ، قرآن الگ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰة الگ ہے تو پھر آپ خود کو مسلمان کہلوانے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے پر بضد کیوں ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہماری کوئی چیز الگ نہیں ہے، ہم مسلمانوں کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مندرجہ ذیل حوالے پڑھ کر سنائے تو مرزا ناصر بے حد پریشان ہوا۔
کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس (قادیانی) فرقہ میں اور دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) میں سوائے اس کے اور کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل نہیں ۔ باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ اور زکوٰة اور حج وہی ہیں ۔ سو سمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیاتِ مسیح کی غلطی کودورکرنے کے واسطے ہے۔ اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی ایک غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا۔ (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ از مرزا قادیانی صفحہ 2)
قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کا کہنا ہے:
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان (مسلمانوں ) سے اختلاف ہے۔خطبہ جمعہ مرزا بشیر الدین خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار الفضل قادیان، ج 19، نمبر 13، مورخہ 30 جولائی 1931)
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے تو فرمایا ہے کہ ان (مسلمانوں ) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔ (روزنامہ الفضل قادیان 21 اگست 1917ءجلد 5 نمبر 15 ص 8)
ایک موقع پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مرزا قادیانی کی تمام کتب موجود ہیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہاں ! ہمارے پاس مرزا صاحب کی تمام کتب موجود ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ ان کی تعداد کیا ہے؟ مرزا ناصر نے کہا کہ 80 کے قریب ہیں ۔ یحییٰ بختیار نے کہا کہ آپ نے ان 80 کتب کو روحانی خزائن کے نام سے شائع کیا۔ اس کے علاوہ ملفوظات دس جلدوں میں ، مجموعہ اشتہارات تین جلدوں میں اور مکتوبات وغیرہ تین جلدوں میں شائع کیے۔ یہ ساری کتب ایک الماری کے دو شیلفوں میں آسکتی ہیں ۔ مگر آپ کے مرزا صاحب نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا ہے:
میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں ۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہادکے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ، ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں ۔(تریاق القلوب صفحہ27،28 مندرجہ روحانی خزائن جلد15 صفحہ155،156 از مرزا قادیانی)
اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ باقی کتب کہاں اور ان کے نام کیا ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ اتنی تعداد میں شائع ہوئیں کہ 50 الماریاں بھر جائیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ صرف ایک کتاب کو ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کردیں تو اس سے سیکڑوں الماریاں بھر جائیں گی۔ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ انگریز کی حمایت اور جہاد کی ممانعت کے سلسلہ میں اتنی کتابیں لکھی ہیں کہ 50 الماریاں بھر جائیں ۔ اس پر مرزا ناصر کو کوئی جواب نہ آیا۔
ایک اور موقع پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ آپ مرزا قادیانی کو کیا مانتے ہیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کو مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ اس کے علاوہ آپ مرزا صاحب کو کیا مانتے ہیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ کچھ نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں میں صراحتاً دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود محمد رسول اللہ ہے۔ اور آپ جب کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی لیتے ہیں ۔ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہم مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ نہیں مانتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا آپ مرزا قادیانی کے دعویٰ محمد رسول اللہ کو جھوٹا مانتے ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر خاموش ہوگیا۔ پھر اٹارنی جنرل نے مندرجہ ذیل اقتباسات پیش کیے:
پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشداءعلی الکفار رحماءبینھم اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ207 از مرزا قادیانی)
مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بنا پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں ۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفےٰ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی۔ (ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 216 از مرزا قادیانی)
میں آدمؑ ہوں ، میں نوحؑ ہوں ، میں ابراہیمؑ ہوں ، میں اسحاقؑ ہوں ، میں یعقوبؑ ہوں ، میں اسماعیل ؑ ہوں ، میں موسیٰ ؑ ہوں ، میں داﺅدؑ ہوں ، میں عیسیٰ ؑ ابن مریم ہوں ، میں محمد ہوں ۔ (تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 521،مندرجہ روحانی خزائن جلد22صفحہ521 از مرزا قادیانی)
کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لما یلحقوا بھم میں فرمایا تھا۔ (کلمة الفصل صفحہ 104، 105، از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے کسی کو بہت، کسی کو کم۔ مگر مسیح موعودؑ کو تو تب نبوّت ملی جب اس نے نبوّت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہوگیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظلی نبوّت نے مسیح موعودؑ کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلوبہ پہلو لاکھڑا کیا۔ (کلمة الفصل صفحہ113، از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود (مرزا قادیانی) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی وبین المصطفی فما عرفنی و ماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے ، پس مسیح موعودؑ خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ، ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔
(کلمة الفصل صفحہ 158از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
اے محمدی سلسلہ کے برگزیدہ مسیح تجھ پر خدا کا لاکھ لاکھ درُود اور لاکھ لاکھ سلام ہو۔
(سیرت المہدی جلد سوئم صفحہ 208 از مرزا بشیراحمد ابن مرزا قادیانی)
اللھم صلی علی محمد و علی عبدک المسیح الموعود۔
اے اللہ محمد اور اپنے بندے مسیح موعود (مرزا قادیانی) پر درود و سلام بھیج۔ (روزنامہ الفضل قادیان 31 جولائی 1937ءصفحہ 5 کالم 2)
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(روزنامہ بدر قادیان، 25 اکتوبر1906ءاز مرزا قادیانی)
جب اٹارنی جنرل نے مرزا قادیانی کی کتب سے مذکورہ بالا حوالہ جات پیش کیے تو ممبران اسمبلی غم و غصہ میں ڈوب گئے۔ بہرحال 13 روز کی طویل بحث اور جرح کے بعد مرزا ناصر نے نہ صرف اپنے تمام کفریہ عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ لایعنی تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ 5 اور 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے 13 روز کی بحث کو سمیٹتے ہوئے اراکین اسمبلی کو مفصل بریفنگ دی۔ ان کا بیان اس قدر مدلل، جامع اور ایمان افروز تھا کہ کئی آزاد خیال اور سیکولر ممبران اسمبلی بھی قادیانیوں کے عقائد و عزائم سن کو پریشان ہوگئے۔ چنانچہ 7 ستمبر 1974ءکو شام 4 بج کر 35 منٹ پر پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان کی شق (2) 160 اور (3) 260 میں ا س کا مستقل اندراج کردیا
تحقیق : قاری فاروق احمد
چیف ایڈیٹر یس اردو نیوز