کراچی: کہا جاتا ہے کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو ایک محاورہ ہے مگر کبھی آ پ نے یہ بات سنی کہ اگر سیدھا چمچہ منہ تک نہ پہنچ سکے تو چمچے ہی کو ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے۔ آپ حیرت محسوس کررہے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ ٹیڑھا چمچہ… ٹیڑھی انگلی سے بات ٹیڑھے چمچے تک کیسے جاپہنچی؟ جی ہاں! ایک ایسا شعبہ آکیوپشنل تھراپی ہے جہاں ٹیڑھے چمچوں کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔
آکیوپیشنل تھراپی وہ شعبہ ہے جس میں کسی بھی ایسے مریض کا علاج ممکن ہے جو کسی جسمانی کمزوری، دماغی الجھن، نفسیاتی مسئلے یا کسی حادثے کی وجہ سے روزمرہ کے کاموں میں دقت محسوس کرتا ہو۔ ایسے مریض کو خودمختار بنانا آکیوپیشنل تھراپسٹ کے اہم ترین اہداف میں شامل ہے. پاکستان میں اس شعبے کی ابتداء 1971 میں ہوئی اور آج یہ اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ ہے جو نہ صرف مریضوں کی خدمت میں اپنی مثال رکھتا ہے بلکہ طلبا کی تربیت کے فرائض بھی انجام دے رہا ہے۔
ڈپارٹمنٹ آ ف آکیوپیشنل تھراپی، ڈاؤ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبی لیٹیشن لاتعداد مسائل حل کرنے کےلیے کوشاں ہے جن میں فالج، مسکولر ڈسٹروفی (پٹھوں کا کمزور پڑ جانا)، سیریبرل پالسی، دماغی کمزوری، دن بدن بڑھنے والی کمزوری اور کوئی بھی وجہ جو روزمرہ معمولات میں دقت کا سبب ہو۔
لیجیے! بات شروع ہوئی تھی ’’ٹیڑھے چمچے‘‘ سے اور جاپہنچی آکیوپیشنل تھراپی تک۔ لیکن کیوں اور کیسے؟ ٹیڑھے چمچے کا اس سے تعلق کیا ہے؟ چلیے اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دراصل آکیوپیشنل تھراپسٹ وہ ماہرین ہیں جو مریض کی پہنچ، گرفت اور رینج کو درست کروانے کےلیے بہت سی مشقیں بھی کرواتے ہیں اور ساتھ ساتھ تجاویز بھی فراہم کرتے ہیں۔ جہاں بات ہو محتاجی کی، جس کی ایک مثال کھانا کھاتے ہوئے چمچہ منہ تک لے جانے میں ناکامی ہے (جو کسی کمزوری یا فالج کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کا نتیجہ ہوسکتی ہے) وہاں آکیوپیشنل تھراپی کارگر ہوتی ہے۔
تو یہ بات صرف چمچے تک محدود نہیں بلکہ بالوں کی کنگھی، نہانے کے برش اور دوسری کئی اشیاء کو مخصوص زاویئے پر موڑ کر مریضوں کی دوسروں پر محتاجی کو خودمختاری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ کہانی ٹیڑھے چمچے کی ہے۔
یہ واقعہ 21 سالہ اسد کا ہے جو پیدائشی طور پر نارمل، صحت مند وتوانا، چاق و چوبند اور ہشاش بشاش تھا۔ پڑھائی میں انتہائی ذہین، کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گریجویشن کا امتحان پاس کیا تو والدین نے اس کا شوق دیکھتے ہوئے موٹرسائیکل تحفے کے طور پر دلادی۔
اسد کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ موٹرسائیکل چلاتا کم اور اڑاتا زیادہ تھا؛ جیسا کہ اس عمر کے اکثر لڑکے کرتے ہیں۔
ایک روز اسد اپنے دوست کے ساتھ تھا اور حسبِ معمول وہ بہت تیز رفتاری سے بائیک چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آنے والے ٹرک سے ٹکر ہوئی اور وہ دور تک گھسٹتا چلا گیا۔ اس کا دوست تو موقعے پر ہی جاں بحق ہوگیا جبکہ اسد اسپتال میں دو دن تک بے ہوش رہا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو اس کا دایاں بازو اور ٹانگ حرکت کے قابل نہ تھے۔
فزیو تھراپی بھی شروع کردی گئی مگر کچھ خاص فرق نہ آسکا؛ اور وہ گھر آگیا۔ وقت کا کام گزرنا ہے، سو وقت گزرتا گیا… کھانا کھانے میں بہن مدد کرتی، نہلانے کےلیے والد اپنے جھکے ناتواں کاندھوں پر اس کو اٹھا کر لاتے، کنگھا کبھی دوست کر دیتا اور کبھی بال ایسے ہی بکھرے رہتے۔
بہرحال، کوئی کب تک ساتھ دیتا؛ اور وہ بھی ایسے شخص کا جس سے وابستہ امیدیں دھیرے دھیرے ماند پڑرہی تھیں۔ والد دنیا سے کوچ کرگئےاور بہن اپنے گھر کی ہوئی جبکہ ایک چھوٹا بھائی رہ گیا جو دن میں ایک مرتبہ اس کے کام کردیا کرتا تھا۔ تین سال کا عرصہ گزرگیا اور اسد کے چہرے کی بشاشت پژمردگی میں بدل گئی۔
مایوسی کے اس عالم میں اسد کا دوست ایک آگہی کیمپ میں آکیوپیشنل تھراپی کے بارے میں جان کر خوشی خوشی ہمارے پاس آیا اور بھائی کے منع کرنے کے باوجود اسے ساتھ لے کر ڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ آکیوپیشنل تھراپی میں لے آیا جہاں نہ صرف اسے بہت اچھے طریقے سے جانچا گیا اور اس کی گرفت، پہنچ اور کمزوری کو چیک کیا گیا بلکہ اسے بہت سے بھی طریقے بتائے گئے۔
اسد کو جاتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اگلے دن اپنے لیے کچھ کھانے کو بھی لے آئے۔ اگلے روز اس کی تھراپسٹ نے کھانے کو کہا تو اسد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ تھراپسٹ نے اسے ایک چمچہ دیا جو کہ اگلے حصے سے 90 درجے کے زاویئے پر مڑا ہوا تھا اور پچھلے حصے سے موٹائی میں عام چمچے کی نسبت خاصا زیادہ تھا، یعنی کہ پھر ٹیڑھا چمچہ۔ اسے دیکھ کر اسد نے بےساختہ کہا، ارے یہ تو ٹیڑھا ہے! کیا میرا مذاق اڑانے کو دیا ہے؟ مگر مجبور کرنے پر جب اسد نے اس سے کوشش کی تو حیران رہ گیا کہ وہ ایک عرصے بعد خود سے کھانا کھا رہا تھا؛ کیونکہ وہی ٹیڑھا اور منفرد چمچہ پکڑنے میں اسےجتنی آسانی ہوئی، اتنا ہی وہ استعمال میں آسان بھی تھا۔
تین سال بعد خودمختاری سے کھاتے ہوئے اس کے آنسو ہی نہیں جاری ہوئے بلکہ دل بھی خوشی سے دھڑکنے لگا اور اس کے چہرے پر خودمختاری کے پہلے مرحلے کی وجہ سے واضح چمک تھی۔ بہرکیف، علاج جاری رہا لیکن خود اعتمادی اسی وقت ممکن تھی جب وہ اپنے روزمرہ کے معمولات خود انجام دیتا۔ لہذا دھیرے دھیرے اسے تمام معمولاتِ زندگی میں خودمختار بنانے کےلیے مختلف آلات یعنی ’’ایڈاپٹیو ڈیوائسز‘‘ اس کی ضرورت کے مطابق جدت یعنی موٹائی اور زاویائی تبدیلی لا کر فراہم کیے گئے۔ ان میں کنگھا، نہانے کے برش، اور کپڑے پہننے میں مدد کرنے کے لیے ڈریسنگ اسٹک دی گئی اور ساتھ ساتھ مشورے اور ایکسرسائز بھی جاری رہی۔ آج ایک سال گزرنے کے بعد اسد خود چل کر آتا ہے اور قلم کا استعمال بخوبی کرتا ہے۔ وہ اپنی نوکری پر بحال ہوچکا ہے مگر کچھ کام وہ اب بھی جدت سے تیار کردہ الات سے کرتا ہے جیسے کہ ’’ٹیڑھا چمچہ‘‘ یعنی اینگولر اسپون… مگر نہایت اعتماد سے۔
جی ہاں! چمچہ تو ٹیڑھا تھا لیکن کھانے کا زاویہ درست کرگیا اور خود اعتمادی بھی بڑھا گیا۔
یہ تھی کہانی اسد کی، جو محتاجی سے خودمختاری تک جاپہنچا۔ ساتھ ہی یہ ٹیڑھے چمچے کی کہانی بھی ہے جس کی افادیت اسد جیسے ہزاروں مریضوں پر ثابت ہوچکی ہے۔
ایڈاپٹیو ڈیوائسز
ایڈاپٹیو ڈیوائسز دراصل وہ مخصوص آلات ہوتے ہیں جن میں مریضوں کی ضرورت کے مطابق گرفت، پہنچ اور دوسری کئی کمزوریوں کو دور کیا جاتا ہے اور انہیں خودمختار بنایا جاتا ہے۔ یہ آکیوپیشنل تھراپی کے اہم آلات ہیں۔
ایک سروے کے مطابق گزشتہ دو سال میں اس ادارے میں کم از کم 100 مریضوں کو انہی ٹیڑھے چمچوں کی مدد سے خودمختاری کی تربیت دی گئی ہے۔
جہاں تک معیارِ زندگی (کوالٹی آف لائف) بہتر بنانے کی بات ہے، تو آکیوپیشنل تھراپی سے ان لوگوں کا معیارِ زندگی 95 فیصد تک معمول پر واپس آچکا ہے جبکہ بقیہ 5 فیصد نہ ہونے کی وجہ ان مریضوں کا استعمال کرنے سے انکار ہے۔
پاکستان میں یہ سہولت (یعنی ٹیڑھے چمچے اور دوسری ایڈاپٹیو ڈیوائسز) صرف ڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ آکیوپیشنل تھراپی میں موجود ہے جہاں معیار کے ساتھ ساتھ مریض کے بجٹ کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ اس کا سہرا بھی پاکستان کے اسی ادارے کو جاتا ہے۔
تو ٹیڑھے چمچے سے شروع ہونے والی بات اور آکیوپیشنل تھراپی کا تعلق اب یقیناً آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا۔