لاہور (ویب ڈیسک) سکیورٹی پرزن 21کو مختصر اقتدار میں ”حراستی اور تفتیشی مرکز‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس حراستی مرکز کو S-21 کا سرکاری کوڈ دیا گیا تھا۔ یہ ٹول سلینگ نسل کشی سنٹر کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس میں تین بلاک ہیں اور ہر بلاک تین منزلہ ہے۔ دونوں طرف سیڑھیاں‘ سامنے برآمدہ اور قطار میں کمرے۔ بالکل ویسے ہی جیسے عموماً سکولوں کے ہوتے ہیں۔ پہلے بلاک میں نچلی منزل پر لوہے کی چار پائیاں رکھی ہوئی ہیں جن میں پائوں باندھنے کیلئے سریے کے کڑے نصب ہیں۔ دوسری منزل میں اجتماعی قیدیوں کا بندوبست ہے اور کمرے کی دیواروں پر ایک سے دوسرے سرے تک دونوں جانب نمبر لگے ہوئے ہیں اور ساتھ لوہے کے کڑے ہیں جن کے ساتھ قیدیوں کو باندھا جاتا تھا۔ تیسری منزل بھی اسی طرح کی ہے۔ دوسرے بلاک میں نیچے قیدیوں کا اجتماعی رہائشی بندوبست تھا۔ دوسری منزل تفتیش کی اگلی منزل تھی۔ اس میں ہر کمرے کے اندر لکڑی کے دو اڑھائی فٹ چوڑے اور پانچ، چھ فٹ لمبے چھوٹے چھوٹے سیل ہیں، جن میں مزید حفاظت کیلئے اور باندھنے کیلئے دیواروں میں ہک اور زنجیریں نصب ہیں۔ تیسری منزل بھی ایسی ہی ہے لیکن وہاں یہ سیل لکڑی کے بجائے سیمنٹ کے بلاکس سے تعمیر کیے گئے ہیں اور دوسری منزل والے لکڑی کے سیلز سے مزید تنگ و تاریک ہیں۔ کمرے میں آمنے سامنے بنے ہوئے ان تنگ ”کھڈا‘‘ نما سیلز کے باہر دروازے ہیں اور درمیان میں راہداری ہے۔تمام کمرے، جو کبھی علیحدہ علیحدہ تھے اور ان کے دروازے باہر برآمدے میں کھلتے تھے، درمیانی دیوار میں دروازہ بنا کر ایک دوسرے سے ملا دئیے گئے تھے تاکہ نگرانی میں آسانی رہے اور ایک سرے پر بیٹھا ہوا نگران دور تک سارے کمروں میں بنی ان کھولیوں پر نظر رکھ سکے۔ تیسرا بلاک اب میوزیم ہے۔ دوسری منزل پر قیدیوں کی تصاویر‘ ان کا حراستی مرکز کا ریکارڈ اور ہلاک شدگان کی میتوں کی تصاویر ہیں۔ تیسری منزل پر ایک کمرے میں دستاویزی فلم دکھانے کا بندوبست ہے اور دیگر کمروں میں تب کی حکومت کے اہم لوگوں کی تصاویر ہیں، جن میں پول پاٹ‘ اس کے وزرائ‘کمبوڈیا کے تب کے صدر کھیوسمپھون اور اس بدنام زمانہ حراستی مرکز کے انچارج کانگ کیک ایووالمعروف ”برادر ڈچ‘‘ کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ پہلی منزل پر اذیتی آلات ہیں اور ایک کمرے میں یہاں مرنے والے قیدیوں کی کھوپڑیاں شو کیس میں رکھی ہوئی ہیں۔ اوپر نیچے پانچ چھ خانوں میں دو بڑے بڑے شو کیس ان کھوپڑیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ کھوپڑیاں اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو کلنگ فیلڈ کے عین درمیان میں بنے ہوئے ”سٹوپا‘‘ میں پڑی ہیں۔ اس بلند و بالا سٹوپا کے اندر سترہ منزلہ شیشے کا بہت بڑا شو کیس ہے جس میں کلنگ فیلڈ سے ملنے والے نو ہزار کے لگ بھگ انسانی ڈھانچوں کی باقیات میں سے دو اڑھائی ہزار کھوپڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔سب سے نچلی منزل میں کھوپڑیوں پر چھوٹے چھوٹے گول رنگدار سٹکر لگا کر واضح کیا گیا ہے کہ مرنے والے کی موت کس طرح ہوئی۔ گولی ماری گئی (سر میں گولی کا سوراخ ہے) ڈنڈے مار کر مارا گیا (سر کی ٹوٹی ہوئی ہڈی نظر آتی ہے) آہنی راڈ سے مارا گیا‘ سنگین گھونپ کر مارا گیا یا کسی اور طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ گولی مارنے کا طریقہ کار سب سے مہنگا تصور کیا جاتا تھا لہٰذا یہ طریقہ کسی کسی قیدی پر آزمایا گیا تھا۔ ٹول سلینگ کے حراستی مرکز میں بیس ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو لایا گیا اور یہاں سے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے Choeung Ek المعروف کلنگ فیلڈ منتقل کر دیا گیا۔ ایک محتاط تحقیق کے مطابق ٹول سلینگ حراستی مرکز سے صرف سات بالغ افراد کے زندہ بچ کر نکلنے کا ریکارڈ دستیاب ہوا۔ بعدازاں وسیع پیمانے پر زندہ بچنے والے قیدیوں کے بارے میں تحقیق کی گئی تو یہ تعداد گیارہ تک پہنچ گئی۔ ان میں سے پانچ ابھی زندہ ہیں اور ان پانچ میں سے دو زندہ بچ جانے والے قیدی آج بھی ٹول سلینگ کے نسل کشی والے عجائب گھر میں بیٹھتے ہیں۔ ایک کا نام Chum Mey ہے اور دوسرے کا نام Bou Mengہے۔ جس روز ہم وہاں گئے Bou Meng ابھی نہیں آیا تھا جبکہ Chum Mey اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھا اپنی کتاب “Survivor” بیچ رہا تھا۔یہ کتاب آٹھ زبانوں میں شائع ہوئی ہے اور The Voice behind the Walls of S-21 کے نام سے مشہور ہے۔ میں نے اور اسد نے ایک ایک کتاب خریدی اور پھر دوبارہ سٹال پر رکھ دی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ کتاب پڑھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اگر میوزیم دیکھنے سے پہلے خریدتا تو گھر لے آتا اور پڑھتا لیکن میوزیم دیکھنے کے بعد مجھ میں یہ کتاب پڑھنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ سات جنوری 1979ء کو ویت نام نے کمبوڈیا پر قبضہ کر لیا۔ ٹول سلینگ حراستی مرکز بھی دیگر حراستی مراکز کی طرح بند ہو گیا۔ پول پاٹ کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ دیگر شریک جرم افراد میں کھیو سمپھون‘ آئنگ سارے‘ نیون چپا‘ آئنگ تھنتھ اور کانگ کیک ایوو المعروف برادر ڈچ شامل تھے۔ ان سب کو ایک خصوصی ٹربیونل میں پیش کیا گیا۔ یہ ٹربیونل خصوصی طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں قائم ہوا۔ سب ملزمان پر ”جرائم بسلسلہ انسانی حقوق‘ جنگی جرائم اور نسل کشی‘‘ کا الزام لگا کر ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ تاہم یاد رہے کہ پول پاٹ حکومت کا خاتمہ 1979ء کے آغاز میں ہو گیا۔ دس سال ویت نام کا قبضہ رہا۔ پہلے انتخابات 1993ء میں ہو گئے جبکہ یہ ٹربیونل 1997ء میں یعنی سارے معاملے کے ختم ہونے کے قریب اٹھارہ سال بعد قائم ہوا۔ابھی اس ٹریبونل کی کارروائی بھی ٹھیک طریقے سے شروع نہیں ہوئی تھی کہ پول پاٹ یعنی مرکزی ملزم اپنے گھر میں نظربندی کے دوران مر گیا۔ دیگر پانچ مجرموں کو مختلف عرصہ کی قید ہو گئی۔ اس دوران وہ گیارہ سال جیل میں گزار چکے تھے اور اگلے چند سال بعد رہا ہو جاتے؛ چنانچہ 2007ء میں ایک سپیشل ٹربیونل بنایا گیا۔ سب کا دوبارہ ٹرائل ہوا اور ان سب کو تاعمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ ٹول سلینگ حراستی مرکز کے انچارج کانگ کیک ایوو (برادر ڈچ) کیخلاف اس ٹربیونل نے نہ کوئی کمیٹی قائم کی‘ نہ کوئی کمیشن بنایا اور نہ ہی کوئی جے آئی ٹی تشکیل دی۔ اس کیخلاف یک رکنی جے آئی ٹی میں صرف اور صرف ایک شخص تھا۔ وہ ٹول سلینگ کے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک چم مے تھا۔اس اکیلے کی گواہی پر برادر ڈچ کی سزا بڑھا دی گئی۔ اگر اس معاملے میں کوئی جے آئی ٹی یا کمیشن بنا دیا جاتا تو شاید یہ کیس ابھی تک فیصلے کا منتظر ہی ہوتا۔ ہمارے ہاں کسی بھی کیس کو لٹکانے‘ دبانے یا مٹی ڈالنے کیلئے کمیشن‘ ٹریبونل اور اب نئے فیشن کے تحت جے آئی ٹی بنانے کا رواج زوروں پر ہے۔ عزیر بلوچ‘ نقیب اللہ قتل کیس‘ ڈاکٹر عاصم‘ شرجیل میمن‘ بلدیہ ٹائون‘ 12مئی کا قتل عام اور اسی قسم کے دیگر سارے کیس فیصلے کے منتظر ہیں۔ یہی حال ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل کا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کیس میں ٹول سلینگ کی مانند یک نفری جے آئی ٹی قائم کی جائے۔ وہ جے آئی ٹی صرف اور صرف عمیر پر مشتمل ہو جس نے اپنے ماں باپ اور بہن کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا ہے۔ باقی بے شمار دیگر شواہد بھی ہیں لیکن صرف یہی ایک گواہی کافی ہے۔ بصورت دیگر قانونی موشگافیوں نے جیسے باقی سب کیسوں کا بیڑہ غرق کیا ہے، ان میں ایک اور ایسے کیس کا اضافہ ہو جائے گا۔