تحریر : میر افسر امان
مسلسل دس سالوں سے پاکستان میں کتابیں چھاپنے اور فروخت کرنے والوں کی تنظیم (دی پاکستان پبلشیئر اینڈ بک سیلرز اسوسی ایشن) کی طرف سے کراچی ایکسپو سینٹر میں بین الاقوامی کتاب میلے کا انعقاد ہو تارہا ہے۔ اس میں حکومت پاکستان کی (نیشنل بک فائڈیشن) کا تعاون بھی شامل ہے۔ اس میلے کو(ایونٹ اینڈ کانفرنس انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ) نے سجایا۔ اس دسویں بین الاقوامی کتاب میلے کی کمیٹی کے کنوینر جناب اویس مرزا جمیل میسرز ایلائٹ پبلیشئر لمیٹڈ ہیں۔ دسواں بین الاقوامی کتاب میلہ١٨ سے ٢٢ دسمبر ٢٠١٤ء ٥ دن تک ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقد کیا گیا ہے۔ اس کتاب میلے میں سنگا پور، بھارت اور پاکستان سے متعدد کتابیںچھاپنے اورفروخت کرنے والے اداروں نے حسب معمول حصہ لیا۔ اس کتاب میلے میں ایک سو پچاس اداروں نے اپنے اسٹال لگائے تھے جس میںہر قسم کی کتابیں فروخت کے لیے پیش کی گئیں تھیں۔ ایکسپو سنٹر کو تین حصوں میں تقسیم کر کے اسٹالزلگائے گئے تھے۔ایکسپو سنٹر کی مین بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی استقبالیہ کائونٹر کے بعد سیدھے ہاتھ پر ہال نمبر ،٣ سامنے ہال نمبر ٢ اور الٹے ہاتھ پر ہال نمبر ١ تھا۔
کتابوں کے اسٹالز وزٹ کرنے کے لیے کشادہ راستے بنائے گئے تھے۔ جس میں فیملیز اپنے بچوں کے ساتھ آسانی سے اسٹالز کو وزٹ کر رہیں تھیں۔ باہر نکلتے وقت ہر فیملی اور فرد کے ہاتھ میں کتابوں کی تھیلیاں تھیں۔کھانے پینے کے اسٹالز کا گیلری میں انتظام کیا گیا تھا۔ میلے میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ جو سوک سنٹر کے سامنے ہے اجازت تھی۔ واک تھرو گیٹ سے لوگوں کوداخلے کی اجازت تھی۔ واپسی کے لیے علیحدہ گیٹ بنا یا گیا تھا۔ اس بین الاقوامی کتاب میلے کا باقاعدہ افتتاح سندھ حکومت کے نثار کھوڑو صاحب نے جمعہ کے دن کیا۔ انتظامات بہت ہی عمدہ تھے۔ ایکسپو سنٹر کو خوب اچھی طرح سجایا گیا تھا۔
پارکنگ کے لیے جگہ کشادہ تھی کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف محسوس نہیں کی گئی۔ کراچی ،جو روشنیوں کا شہر تھا جسے ملک دشمنوں نے٢٥ سال سے غموں کے شہر میںتبدیل کر دیا ہے ،کے علم پسند لوگ جوق در جوق شریک ہوئے۔ جن میں بچے ،نوجوان، بوڑھے اور خواتین شامل تھیں۔ علم دوستی اور سستی تفریح کے علاوہ گھروں میں محسور لوگوں کو کچھ دن کے لیے سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ وہ اپنی فیملیوں کے ساتھ اس کتاب میلے میں شریک ہوئے۔اپنے اوربچوں کی پسند کی کتابیں خریدیں۔ کراچی شہرجس کے نوجوانوںکے ہاتھ میں قلم اور بڑوں کے ہاتھ میں دلیل کا ہتھیارہوا کرتا تھا اس کتاب میلے میں کثیر تعداد میں شرکت کرکے پھر کتاب دوستی کا ثبوت فراہم کیا۔ کتاب بینی سے ہی تو علم حاصل ہوتا ہے اورانسان دلیل کی باتیں کرتا ہے۔ ا ن شاء اللہ کراچی میں اس کتاب میلے سے لوگوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونگی اور وہ پھر سے دلیل کی بنیاد پر پورے پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی خیالات کو تبدیل کرنے لگیں گے۔
اللہ بھلا کرے کتابیں چھاپنے اور فروخت کرنے والی تنظیموں کا کہ جو مسلسل ٩ سالوں سے کراچی میںکتاب میلے کا انعقاد کر رہی ہیں اور اس سال بھی اس کتاب میلے کا انعقاد کیا۔ ہم نے ایک چیز نوٹ کی کہ کتابوں کے اسٹالز پر پچاس فی صد کی رعایت نہیں دی جا رہی تھی۔ سال بعد کتاب میلہ لگتاہے لہٰذا اس میں تو عوام کو مناسب رعایت ملنی چاہیے۔ منتظمین سے درخواست کرتے ہیں اور امید ہے آیندہ سال اس کا خاص خیال رکھا جائے گا۔اس کتاب میلے میںبچوں کی کتابیں، سی ڈیز، کارٹون اور دیگر مواد کثیر تعداد میں فروخت کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ قرآن پاک اور تفاسیر قرآن پاک کے بھی اسٹالز موجود تھے۔ سیرت رسول اللہ پر بھی کتابیں تھیں۔ دنیا کے مختلف علماء کی طرف سے لکھی گئی دینی کتابیں بھی فروخت کے لیے رکھیں گئیں تھیں۔ تاریخ، مذہب، فلسفہ ،ادب،فنون لطیفہ اور مختلف علوم پر کتابیں بھی تھی۔ نصاب کی کتابیں اور نصاب بنانے والے اداروں کے اسٹالز بھی موجود تھے۔
اس میں ہماری پسندیدہ اکیڈمی بک سنٹر( آئی آر اے) کا اسٹال بھی تھا جس سے ہم نے اپنی پسند کی چند کتابیں خریدیں۔ غرض ہر قسم کے علم کی کتابیں اس کتب میلے میں موجود تھی۔اردو، انگریزی، سندھی کے کتابوں کے اسٹالز لگے ہوئے تھے۔ مستقل بیماری کے باوجودہم گذشتہ سالوں سے اس کتاب میلے میں شرکت کر رہے ہیں ۔اپنے شوق کے مطابق کتابیں بھی خریدتیں ہیں۔ کتاب دوستی کی وجہ سے ان کتابوں پر اپنے کالموں میں تبصرے بھی لکھتے رہتے ہیں جو اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس میلے کی ابلاغ کے لیے ہر سال کالم بھی لکھتے رہتے ہیںغرض یہ ہے کی اس اچھے اور نیک کام کی تشہیرہو اور ہمارے ملک کے لوگوں کو کتابوںسے محبت پیدا ہو جا ئے۔ ہمارے نزدیک کتاب بینی بہت کم ہو گئی ہے۔ لوگ ٹی وی اور فیس بک کے استعما ل کی وجہ سے کتابوں کی طرف کم ہی
دھیان دیتے ہیں۔ ہم ہر سال منتظمین سے اپنے کالم میںدرخواست کرتے رہتے ہیں۔ ملک کے سارے صوبوں میںایسے کتاب میلوں کا انتظام کیا جائے۔ یہ اس وقت کی ضرورت ہے۔ جب مسلمان کتابیں پڑتے تھے تو اس وقت کی دنیا علم کی پیاس کے لیے سمر قند اور بخارا کی یونیورسٹیوں کی طرف رجوع کرتی تھی۔ اب جو قومیں کتاب بینی کرتی ہیں تو لوگ لندن اور واشنگٹن کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے وقت کے کتب خانوں جو بغداد وغیرہ میں قائم کیے گئے تھے یاد رکھنا چاہیے جنہیں کتاب دشمن حملہ آور تاتریوں نے مسلمان دشمنی میں جلا دیا اور دریا برد کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو پھر سے کتابوں سے لگائو لگانا چاہیے۔ ہمارے اہل علم اور حکومتوں کومغرب کی کتب کے ترجمعے کروانے چاہیں تاکہ علم کی قوت سے مسلمان پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ بہرحال یہ کتاب میلہ وقت کی ضرورت ہے کراچی کے لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ منتظمین بھی قابل مبارک باد ہیں۔ اللہ ہمارے کراچی اور پورے پاکستان کے حالت درست فرمائے آمین۔
تحریر : میر افسر امان
mirafsaraman@gmail.com