تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
امریکا میں ہونے والے 9/11 دھماکوں کے بعداب پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد دنیا پر خوف کی فضا طاری ہے۔ امریکہ سے لے کر پاکستان تک حکام اور عوام ان اندیشوں میں مبتلا ہیں کہ دہشت گردوں کا آئندہ نشانہ کون ہو سکتا ہے۔ یورپ کے اکثر ملکوں میں سکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے اور متعلقہ حکام کو یقین ہے کہ دہشت گردوں کے کئی گروہ مختلف ملکوں میں موجود ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس خوف کی علامات پاکستان میں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ ملک مقامی سطح پر پیدا ہونے والے دہشت گردوں سے بمشکل چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ سے سینٹ پیٹرز برگ جانے والے مسافر طیارے کو 31 اکتوبر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ روس کے سکیورٹی حکام نے اس کی تصدیق کی ہے۔ اس سے قبل برطانوی اور امریکی ماہرین نجی طور پر اس شبہ کا اظہار کر رہے تھے تاہم روس نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ حتمی تحقیقاتی رپورٹ آنے تک کوئی بات کرنا درست نہیں ہو گا۔البتہ یہ قرار دینا بے حد مشکل ہے کہ فضائی حملوں کے ذریعے تباہی پھیلانے کی حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہو گی۔
دنیامیں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کے دوران اور بعد میں لاکھوں انسان زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن بعد میں اصل مجرم کاانکشاف ہوتاہے جس طرح امریکا میں ہونے والے9/11 دھماکوں کے بارے میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ”سی بی آئی” کے اعلی افسر اور نئی دہلی کے سابق پولیس کمشنر نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں ہونے والے 9/11 دھماکوں کیلئے فنڈنگ بھارت سے ہوئی تھی۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے آل لائن ایڈیشن پر جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ سابق سی بی آئی افسر نراج کمار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں ہونے والے 9/11 دھماکوں کے لئے فنڈنگ بھارت میں کی گئی، فنڈنگ اغوا برائے تاوان کے ذریعے کی گئی اور عمر شیخ نے یہ رقم حملہ آور عطا محمد کو فراہم کی۔
عمر شیخ کو یہ رقم دہشت گرد آفتاب انصاری نے فراہم کی تھی جو کلکتہ میں واقعہ امریکن سنٹر پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ آفتاب انصاری امریکن سنٹر پر حملے کے الزام میں اس وقت مغربی بنگال کی جیل میں قید اور سزائے موت کا منتظر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ سب معلومات حرکت المجاہدین کے رکن آصف رضا خان نے فراہم کیں تھیں جب کہ عمر شیخ کو بھارت نے انڈین ایئر لائن کا ہائی جیک جہاز واپس کرنے کے بدلے میں 1999 میں رہا کردیا تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے لئے عطا محمد کو پیسوں کی فراہمی کی تصدیق ایف بی آئی کے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جان ایس پسٹول نے بھی امریکی سینیٹ کی دہشت گردوں کی معاونت کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کے سامنے 2003 میں تصدیق کی تھی۔
بتایاجاتاہے کہ فرانس نے اپنے طور پر انتقام اور غصے کی کیفیت میں روس کے ساتھ تعاون بھی شروع کیا ہے اور دونوں ملکوں نے فضائی حملے بھی شدید کئے ہیں۔ لیکن ماضی کے تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ صرف فضائی حملے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ اس طرح دہشت گردی سے زیادہ شہری آبادیوں کا نقصان ہو گا۔ شہر تباہ ہوں گے اور حملہ آوروں کے خلاف لوگوں میں غصہ جنم لے گا جسے انتہا پسند گروہ اپنی قوت کے طور پر استعمال کریں گے۔ دوسری طرف بیرونی فوجی حملہ بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ماضی قریب میں افغانستان اور عراق میں یہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔
اب کوئی بھی بڑی طاقت اس قسم کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں واحد متبادل یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا جائے، خانہ جنگی کے حالات ختم کرنے کے لئے بیرونی سرپرستی اور مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے اور عراق و شام کی حکومتوں کو اپنے علاقے واپس لینے کے لئے عملی امداد فراہم کی جائے۔یہ حکمت عملی اختیار کرنا فی الوقت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ امریکہ کی سرکردگی میں اتحادی ممالک علاقے میں روس اور ایران کا اثر و رسوخ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر اس سوچ کو بدلتے ہوئے ایسے حالات پیدا کر بھی لئے جائیں تو بھی اس جہادی دہشت گرد مزاج کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل اور طویل المدت اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس پالیسی میں علاقے کے مختلف مسالک اور عقائد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا بے حد ضروری ہو گا۔دوسری جانب پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پیرس طرز کے حملے لاہور میں بھی ہو سکتے ہیں۔
ماہرین،مبصرین اور دانشمندوں کی رائے یہ ہے کہ دہشتگردی بارے انکشاف کرنا کافی نہیں ۔اس کے ساتھ ہی یہ بات سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ دہشت گردنہ تو صرف مشرق وسطیٰ تک محدود ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود ہیں اور ان انسان دشمنوں نے اپنی پروپیگنڈا قوت کے زور پر انہیں متحرک بھی کیا ہے اور انہیں یہ باور بھی کروایا ہے کہ اس کا جبر دراصل استحصال اور ظلم کے خاتمے کے لئے ہے جو مقتدر قوتوں کی طرف سے ان پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ اس لئے پاکستان میں بھی اس گروہ کے ہمدرد اور ہرکارے موجود ہیں۔
آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لیکن یہ عناصر دینی اور جذباتی نعرے لگاتے ہوئے معاشرے میں اپنا گہرا اثر و رسوخ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اسی لئے پاک فوج قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کا تقاضہ کر رہی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت دہشت گرد اور اس کا مزاج تیار کرنے والے شرپسند عناصراور انسان دشمنوں کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ