اُس نے پرندے کی زبانی ایک کہانی سے اپنی بات کا آغاز کیا کہ پرندہ کہتا ہے کہ ’’میں ایک طائرِ پیر، اسیر قفس ہوں۔ جب فضا میں رقص کے قابل نہ رہا تو یہ پنجرہ میرا مقدر بن گیا۔ اب میں اپنا سارا وقت اسی پنجر ے کی نوکیلی دیواروں کے سائے میں آزادی کے نوحے گاتا گزارتا ہوں۔ یہاں مجھے اتنی بھی اجازت نہیں کہ سکھ کا کوئی سانس ہی لے سکوں لیکن میں عادت سے مجبور ہوں، پَروں کو کھولنا، پھڑپھڑانا میری فطرت ہے۔ جونہی میں اس قفس میں اپنے پَر کھولتا ہوں اس پنجرے کی نوکیلی دیواریں میرے پروں کو گھائل کر دیتی ہیں اور میں پھر اک مدت تک دوبارہ پر کھولنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ خوں رِستا رہتا ہے، اشک بہتے رہتے ہیں اور میں مقدر کو کوستا رہتا ہوں لیکن مقدر کا بھلا اس میں قصور ہی کیا۔ یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے۔
ایک عرصے تک میں خود کو تسلی دے کر اس پنجرے میں قید کے لئے خود کو تیار کرتا رہا مگر اب یہ میرے لئے ممکن نہیں رہا۔ میں ایک پرندہ ہوں اور پَر کھولنا میری فطرت ہے، میں جان سے جا سکتا ہوں مگر فطرت سے نہیں۔ اب اسی لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ میری وحشت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مجھے اس پنجرے سے خوف آتا جا رہا ہے۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ اب میری قسمت میں آزادی کے لمحات باقی نہیں رہے مگر میں اس پنجرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں میرے پر وں کو گھائل کر دیا جاتا ہے۔ میں کئی بار اس پنجرے کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو چکا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ اس کا دروازہ کیسے کھولا جاتا ہے لیکن دروازے سے گزرنا بھی مجھ ’اَنا پرست‘ کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں۔ گردن کو خم کرکے، غرور بے نیازی کے بت کو پاش پاش کرکے اس پنجرے سے نکلنا مجھے منظور نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ میں دن رات سوچتا رہتا ہوں کہ اس پنجرے سے کیسے نکلا جائے۔
یا تو میں اپنے پر کھولنا، پروں کو پھڑپھڑانا بند کر دوں اور اسی پنجرے میں قید کو اپنا مقدر سمجھ کر باقی کی زندگی گزار دوں لیکن پھر کبھی انجانے میں اگر مجھے اپنے پر کھولنے کا خیال بھی آ گیا تو وہ لمحہ میرے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہو گا۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے غرور کے مینار کو خود اپنے ہاتھوں سے ڈھا دوں اور اس پنجرے کے دروازے سے باہر نکل جائوں۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ میری گردن یہاں سے نکلتے وقت زخمی ہو جائے، میرے پَر بھی نوچے جائیں اور میں اڑنے تو کیا چلنے پھرنے کے بھی قابل بھی نہ رہوں مگر مجھے ایک تسلی ہو گی کہ میں آزاد ہو جائوں گا۔
یا یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے اس پنجرے سے نکلنے کے بعد کسی اور پنجرے میں قید کر دیا جائے اور وہ پنجرہ کیسا ہو گا یہ ایک انجانا سا خوف ہے جو ہر وقت مجھے گھیرے رہتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں مجھے اپنے پَر کھولنے کی اجازت ہو یا پھر شاید وہ پنجرہ میرے لئے اس کوٹھری کی مانند ہو جہاں سانس بھی مشکل سے آتا ہو۔ مگر کیا کیا جائے؟ اس پنجرے میں پروں کو آئے دن زخمی کرنے سے بہتر تو یہی ہے کہ میں یہاں سے نکلنے کی کوشش کروں۔ اب آپ ہی مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ اپنی باقی ماندہ زندگی اپنے پروں کو سمیٹے اس پنجرے میں گزار دوں؟ یہاں سے نکلنے کی کوشش کروں خواہ سب کچھ زخمی ہو جائے اور اس کے بعد کسی اور پنجرے کا اسیر ہو جائوں جس کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ وہ کیسا ہو گا‘‘۔ کہانی سنانے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ تم ہی مشورہ دو، اس پرندے کو کیا کرنا چاہئے؟
کچھ دیر سوچ بچار کے بعد میں نے کہا کہ اسے یہاں سے نکلنے کی کم از کم کوشش ضرور کرنی چاہئیے۔ ممکن ہے کہ جیسا وہ سوچ رہا ہے ویسا نہ ہو، اسے صرف اپنے خوف سے ڈر ہے۔ اگر وہ اپنے خوف پر قابو پا لے تو اسے خود بخود اس قید سے نجات مل جائے گی۔ اس نے کہا کہ تمھاری بات بہت حد تک درست ہے مگر شاید یہ خوف انسان کی سرشت میں شامل ہے۔
زندگی میں زیادہ تر لوگ اِسی انجانے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ وہ فطرتاً آزاد ہوتے ہیں مگر مجبوریوں کی بیڑیوں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ مجبوری کی یہ زنجیریں انسان کی خواہشوں، امنگوں اور حتیٰ کہ سوچ و فکر کو بھی قید کر لیتی ہیں اور انسان اپنی ساری عمر اسی خوف کے سبب تباہ کر لیتا ہے۔ ہم میں سے بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے اس خوف پر قابو پا کر کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں اور کر گزرتے ہیں۔ انہی لوگوں کو زمانہ ’’لیجنڈ‘‘ کے نام سے یاد رکھتا ہے۔
اگر تم عظیم لوگوں کی زندگی کے حالات پڑھو تو یہ ایک چیز سب میں مشترک ملے گی کہ انہوں نے زمانے کی باتوں کی پروا نہیں کی، وہ کسی کو خاطر میں نہیں لائے۔ وہ چلتے رہے، ان کے قدم گھائل ہوئے مگر انہوں نے اپنا سفر ادھورا نہیں چھوڑا، ان کی ہمت بھی ٹوٹی اورسکت بھی جواب دے گئی مگر وقت کی تلوار اور اس کی تیز دھار انہیں چلنے پر مجبور کرتی رہی۔ وہ تنِ تنہا اپنا سفرطے کرتے رہے، کسی کے ساتھ یا سہارے کے بغیر۔ وہ اپنا اور اوروں کا بار بھی اپنی کمر پر لادے ہوئے تھے جو ان کی کمر کو چھیل چھیل کر زخمی کر رہا تھا۔ پیٹھ سے خون بہہ بہہ کر قدموں کے لہو میں شامل ہو کر خاک پر ایک نئی داستان رقم کر رہا تھا، جسے بعد میں ’’تاریخ‘‘ کا نام دیا گیا مگر انہیں اس بات کی پروا ہی کب تھی۔ انہیں صرف اپنی منزل سے غرض تھی، انہیں محض اپنا سفر مکمل کرنا تھا اور ان کی نظر بہرطور اپنی منزل پر تھی۔
اگر تمہیں بھی اپنی منزل پر پہنچنا ہے تو تمہیں سب سے پہلے لوگوں کی پروا کرنا چھوڑنا ہو گی۔ اس خوف سے مبرا ہونا پڑے گا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ ہم میں سے ہر شخص اسی ایک خوف کا شکار ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے مگر شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ لوگ آخر کون ہیں؟ کیا یہ لوگ ہم خو د نہیں؟ کیا یہ معاشرہ ہم سے نہیں؟ اگر ہم کسی کے بار ے میں نہیں سوچیں گے کہ وہ کیا کرتا ہے، کیوں کرتا ہے تو پھر کوئی ہمارے بارے میں اس قسم کی باتیں سوچ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا۔ ہمیں پہلے خود میں یہ تبدیلی لانا ہے۔ جس دن ہم بارش کا پہلا قطرہ بننے کیلئے راضی ہو گئے اس دن سمجھ لینا کہ معاشرے میں حقیقی تبدیلی کی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔