ایک زمانہ تھا جب اس پاکستان میں سب لوگ پیار محبت اور بھائی چارے سے رہا کرتے تھے۔ ملک کی فضاء پرسکون تھی ، ہوا میں تازگی تھی اور لوگوں میں اپنائیت تھی مگر آہستہ آہستہ یہ سب چیزیں ختم ہوتی گئیں۔کچھ دیہاتوں میں آج بھی ہر چیز خالص ہے چاہے وہ خوراک ہو یا رشتے لیکن بیشتر جگہوں پر کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ ملک، سیاست ، خدوخال ،محل وقوع، جغرافیائی اہمیت الغرض سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ اور اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ دہشتگردی ہے۔
ہمیں اگر دنیا میں لوگ پہچانتے ہیں تو اس کی وجہ ملک کی معیشت نہیں بلکہ اس ملک میں ہونے والے دہشت گردی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ملک چاہے اس کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں یا نہیں،اس نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر ان ممالک میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آجائے تو وہ اُس واقعے کو حادثہ ،تعصب یا نسلی فساد قرار دیتے ہیں لیکن اگر کوئی مسلمان اس واقعے میں ملوث ہو تو کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب نہیں بلکہ دہشتگردوں کی پناہ گاہ ہے۔
گزشتہ چند سالوں کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی جنگ میں جو نقصان افغانستان میں ہوا اس نقصان کا سو فیصد ذمہ دار پاکستان ہے حالانکہ پاکستان کا اس جنگ میں کوئی کلیدی کردار نہیں تھا۔ بہرحال یہ تو دہشت گردی کے وہ منفی اثرات تھے جن کا اثرہمارے ملک پر ہوا مگر ان منفی اثرات کے ساتھ دہشت گردی نے اس ملک پاکستان میں بہت سے لوگوں کے روزگار کے راستے ہموار کردیے۔ لوگوں کی نظر میں دہشت گردی ایک ایسافعل ہے جس نے کئی گھرانوں کے ٹھنڈے چو لہےجلا دیے۔
سرکار نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بنیاد بناکر بہت سارے ممالک سے پیسے بٹورے ۔ ان پیسوں سے انہوں نے اپنے گھروں کو روشن کیا ، اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کیا ، اپنی شاہ خرچیوں کوبڑھایا اور عوام کو دوبارہ اسی دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ دہشت گردی کی لہر کے بعد پاکستان میں ہر ادارے، ہر دفتر، سرکار پاکستان نے چند ایس او پی بنائے۔ ایس او پی کی روشنی میں جو اصول وضع کیے گئے ان کے مطابق دفاتر ،سکول ،کالج، یونیورسٹیز میں ایک جامع اور مضبوط سیکورٹی نظام، خاردار تاریں سیکیورٹی کیمرے اور سیکیورٹی اہلکار وغیرہ تعینات کیے جائیں گے۔ اس مد میں جو خرچہ ہوگا اس کا بوجھ بھی والدین پر ڈال دیا گیا۔
یہ سیاستدان ہمارے ملک کے لیے دہشتگردوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ دہشتگردوں سے نبٹنے کے لیے تو پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں، ان سیاستدانوں کے خاتمے کے لیے کب پالیسیاں بنائی جائیں گی؟