تحریر؛ اختر سردار چودھری ،کسووال
پشاور میں دہشت گردوں نے حملے سے قبل گاڑی کو آگ لگائی ،امامیہ مسجد میں دو خود کش دھماکے کیے ،2 گھنٹے فائرنگ کرتے رہے ،20 نمازی جان بحق ہوئے ،60 سے زیادہ زخمی ہوئے بیشتر زخمیوں کی حالت تشویشناک ،زخمیوں میں بچے بھی شامل ،سرچ آپریشن میں 15 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ،کہا جاتا ہے حملہ آور ازبک باشندے تھے ،اور ان کی تعداد چار تھی ،حملہ آور دیوار پھلانگ کر امام بارگاہ کی مسجد میں داخل ہوئے ،ایک نے خود کو مسجد کے دروازے پر ہی اڑا لیا ،جبکہ باقی دستی بموں سے حملہ اور فائرنگ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے ،عینی شاہدین کا کہنا ہے
دوسرے حملہ آور نے مسجد کے صحن میں خو د کو اڑا لیا ،ایک دہشت گرد کو نمازیوں نے دبوچ لیا ،جس وجہ سے وہ خود کش حملہ نہ کر سکا اور بعد ازاں مقابلے میں مارا گیا ،یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جب نمازیوں نے اس کو پکڑ لیا تھا تو پھر کیا ان کو چھوڑ دیا تھا جو وہ مقابلہ کرنے لگا ،کیا اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا،اگر اسے گرفتار کر لیا جاتا تو بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ سکتا تھا ، تحریک طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے دوسری طرف اس سانحہ کی تمام سیاست دانوں اور مذہبی رہنمائوں نے شدید مذمت کی ہے ،وہی سوال جو ایسے ہر واقع کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذمت کرنا کافی ہے؟ ،یہ بھی خبر ہے
تمام حساس اداروں ،مقامات ،کی سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گی ہے ،اس واقعہ سے پہلے ایسا کیوں نا کیا گیا؟ جبکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ دہشت گردوں کا ردعمل لازمی آئے گا ، ایسے حادثات سے نپٹنے کے لیے ہمارے ملک میںپہلے سے کوئی پلاننگ نہیں ہوتی بلکہ جب حادثہ ہو جاتا ہے تو مذمت کی جاتی ہیاور سمجھ لیا جاتا ہے کہ فرض پورا ہو گیا ۔
حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کوئی مستقل لائحہ عمل طے کیا جائے تازہ ترین دہشت گردی کے حملے کے بعد اس پر وہی پرانی باتیں کی جاتی رہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے ۔جب تک اس ملک سے آخری دہشت گرد کو ختم نہیں کر دیا جاتا چین سے نہیں بیٹھے گے۔اس سانحہ پر مذمت ایک گالی لگتی ہے ۔ ان زخموں کا کوئی مداوا نہیں کوئی سزا اس کی شایان شان نہیں بے شک اس حملے میں شامل دہشت گردوں کو قتل کر دیا گیا لیکن اصل مجرم ابھی تک زندہ ہیں جنہوں نے اس حملے کا منصوبہ بنایا۔اس سانحہ پر بیانات ،مذمت ،اجلاس ،سب فضول لگ رہا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ سانحہ ہوتا ہے اس پر بیانات دئیے جاتے ہیں اور پھر سب بھول جاتے ہیں ۔ایسے سوالات کی اب اجازت نہیں ہے کہ کہا جائے فوجی عدالتیں بنانے سے کیا دہشت گردی ختم ہو جائے گی تو جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔کیونکہ سیاست دان ہر دہشت گرد حملے پر سیاست کرتے ہیں ،کمیٹی بنتی ہے ،مذمت ہوتی ہے ،نیا حادثہ پرانے کی اہمیت کم کر دیتا ہے اور اس کے بعد والا اسے بھلا دیتا ہے ،ملک بھر میں دہشت گردوں کی پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
ابھی تک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ابھی تک ایسے اقدامات نہیں کیے گے جن سے دہشت گردی ختم ہو سکے اس پر میرے چند دلائل بھی ہیں اول یہ کہ دہشت گرد تو خود کش حملہ کرتے ہیں اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں ان کو جان کا خوف نہیں ہے وہ اسے شہادت سمجھتے ہیں ،اس لیے میری درخواست ہے کہ سب سے پہلے وجہ معلوم کی جائے اس کی وجہ کیا ہے ؟ اسباب کیا ہیں؟ ان وجوہات کو دور کیا جائے ،اسباب تلاش کیے جائیں اور ان کا حل کیا جائے ۔اس کی ایک وجہ ہے امریکی جنگ کو اپنی جنگ خیال کرنا ،ڈرون حملے جس سے خاندان کے خاندان ختم کر دئیے جاتے ہیں ،جہاں ڈرون حملے ہوتے ہیں وہاں رہنے والے کیا انسان نہیں ،وہ پاکستانی نہیں ،ان کی حفاظت کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔
ذاتی طور پر تو ہم ماڈل ٹائون ،سانحہ بلدیہ ٹائون ،پشاور سکول میں سفاک دہشت گردی ،مساجد و امام بارگاہوں میں حملے ان سب کو دہشت گردی سمجھتے ہیں اور سب کے لیے قانون بھی ایک سزا بھی ایک کا مطالبہ کرتے ہیں۔دہشت گردی کی دوسری وجہ ہے عدل کا سب کے لیے ایک جیسا نہ ہونا ۔اس کا حل یکساں انصاف کی فراہمی ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب آپ یکساں انصاف نہیں کریں گے کچھ کے لیے معیار انصاف اور کچھ کے لیے دوسرا ہو گا تو کیسے ملک میں امن آئے گا ۔ تیسری وجہ فرقہ پرستی،چوتھی بیرونی مداخلت وغیرہ ہے بیرونی مداخلت اس کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔
حکمرانوں یعنی صاحب اقتدار اور ذمہ دار اداروں ،فوج و عدلیہ کو اصل میں ان سب دہشت گردی کے واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا چاہیے اور ان سب کی وجوہات تلاش کر کے ان کا اسباب کا حل کیا جائے ۔تب ہی پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو گی ۔قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے ۔عوام کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے اسے پورا کیا جانا چاہیے۔
دہشت گرد کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی وجوہات کا خاتمہ کیا جائے اس سے ہی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے ۔ اسلام میں تو کسی کو بھی قتل کرنا جائز نہیں ۔ارشاد تو یہ بھی ہوتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان لی ۔اللہ سے دعا ہے کہ ہماری قوم ،حکومت ،فوج و عدلیہ کو اس سا نحہ سے سبق سیکھنا چاہیے اورمتحد ہو کر ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس سے ایسے، واقعات، حادثات، اور سانحات سے بچا جا سکے۔
تحریر: اختر سردار چودھری