آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد تووفاقی وزارت داخلہ کا کردار انتہائی محدود ہو گیا ہے جب کہ صوبائی حکومتوں کے اختیارات اور دائرہ کار میں اضافہ کر دیا گیا ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ’’ نیشنل ایکشن پلان ‘‘ کی تیاری میں چوہدری نثار علی خان کا ’’خون جگر‘‘ شامل ہیں انہوں نے دن رات محنت کر کے 20نکاتی نیشنل ایکشن تیار کیا جس کی سیاسی و عسکری قیادت سے تائید حاصل کی گئی لیکن اس پرعمل درآمد کے حوالے سے سب سے زیادہ تنقید بھی چوہدری نثار علی خان پر ہی کی جاتی ہے جب کہ سب کو علم ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے 4،5نکات کا تعلق وفاقی وزارت داخلہ سے ہے جب کہ بیشتر نکات کا تعلق صوبوں سے ہے جب کہ کچھ نکات کا براہ راست تعلق قومی سلامتی کے اداروں سے ہے ان کے کام میں کوئی دوسرا مداخلت نہیں کر سکتا یہ بات پوری قوم جانتی ہے قبائلی علاقہ جات دہشت گردوں کے لئے ’’جنت ‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے لیکن ’’ضرب عضب‘‘آپریشن نے بڑی حد تک دہشت گردوں کے اڈوں کا صفایا کر دیا گیا بچے کچھے دہشت گردوں نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان میں پناہ لے لی جہاں انہیں افغان حکومت کے’’ مہمان ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے افغانستان کی حکومت ان اڈوں کی موجودگی سے انکار نہیں کرتی لیکن ایک طرف ان کے خلاف فوجی قوت میں کمی کا بہانہ بنا کرکوئی کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کو افغانستان کی حدود میں دہشت گردوں کے اڈوں کے خلاف کارروائی بھی نہیں کرنے دیتی دہشت گردی کے ان اڈوں تک افغانستان میں قائم بھارت کے 14قونصل خانوں کو رسائی حاصل ہے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی رہنمائی اور معاونت سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گرد ’’را‘‘ کے آلہ کار بن گئے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف ’’غیر اعلانیہ‘‘ جنگ شروع کر رکھی ہے جس میں اسے اٖفغانستان کا تعاون حاصل ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی
پچھلے ہفتہ کے دوران پاکستان کے مختلف حصوں میں آنے والی دہشت گردی کی تازہ لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے صوبائی حکومتوں کے سیکیورٹی انتظامات بارے میں سوالات کھڑے کر دئیے ہیں بعض صوبائی حکومتوں نے سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کا اعتراف کرنے کی بجائے ایک بار پھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ’’تختہ مشق ‘‘ بنانا شروع کر دیاہے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ساری ذمہ داری وفاقی وزارت داخلہ پر ڈال دی ہے سانحہء سہون شریف کے بارے میں معلوم ہوا ہے سیکیورٹی نام کی سرے سے کوئی چیز تھی ہی نہیں ،گنتی کے چند پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تھے جب کہ باقی غائب تھے واک تھرو ’’نان فنکشنل‘‘ تھے جب سانحہ پیش آیا اس وقت بجلی نہیں تھی درگاہ پر بجلی کی فراہمی کا کوئی متبادل انتظام نہیں کئی عشروں سے پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے لیکن سندھ کی ایک بڑی درگاہ کے قریب کوئی ہسپتال بھی نہیں تھا زخمیوں کو نوابشاہ لے جانا پڑا ۔ اسے سندھ حکومت کی نالائقی ہی کہا جا سکتا ہے درگاہ میں خود کش حملے کے بعد انسانی اعضا مناسب طریقے سے سمیٹنے کی بجائے گندے نالے میں پھینک دئیے جس سے لوگوں میں شدید ’’ناراضی‘‘ پائی جاتی ہے درگاہ سے آدھا کلو میٹر دور انسانی اعضا پھینکے جانے کے بارے میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشیدشاہ نے عجیب منطق پیش کی ہے کہ دھماکے سے آدھ کلومیٹر دور انسانی اعضا نالے میں جاگرے ہیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ روز سینئر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے سانحہ سیہون شریف پر بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ کچھ لوگ اپنی مجرمانہ نااہلی چھپانے کے لئے اس افسوس ناک واقعہ پر سیاست پر اتر آئے ہیں جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بطور وزیرِ داخلہ پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران ایک اصول پر سختی سے عمل کیا ہے کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر سیاست کی ہے اور نہ ہی کسی پر الزام تراشی کی ہے مگر پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ایک سیاسی جماعت کے چند اکابرین نے انتہائی شرمناک انداز سے اپنی نااہلی چھپانے کے لئے وفاقی حکومت پر الزام تراشی کی ہے جو ان لوگوں کی کارکردگی اور سوچ کی عکاس ہے۔وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہاہے کہ’’ ان لوگوں کو اگر شرمندگی نہیں تو کچھ خدا کا خوف ضرور ہونا چاہیے جو برصغیر کی ایک بڑی درگاہ کے سانحے پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سیہون شریف کی سیکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے یا اس کی ذمہ دار متعلقہ صوبائی حکومت ہے؟ ۔ گذشتہ روز سہیون شریف جیسے اہم مقام پر سیکیورٹی کے جو حالات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ان کااظہار کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی میں اس سطح پر جانا چاہتا ہوں جس سطح پر یہ لوگ جا رہے ہیں۔ اگر ان کے بے سرو پا الزامات کا سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند روز میں ساری صورتحال قوم کے سامنے رکھوں گا اور درگاہ لعل شہباز قلندر میں جو ہوا، جس انداز میں ہوا اور جس کی یہ ذمہ داری ہے وہ سندھ کے عوام کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے سامنے رکھی جائے گی۔ ممکن تھا چوہدری نثار علی دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو آڑے ہاتھوں نہ لیتے لیکن پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سید خورشید شاہ اور قمر زمان کائرہ نے سانحہ سیہون شریف پر وفاقی حکومت بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ’’کہاں ہے وزیر داخلہ؟‘‘ اسی طرح سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو بھی چوہدری نثار علی خان کے خلاف بات کرنے کا موقع مل گیا کہ چوہدری نثار علی خان نے دربار پر حاضری نہیں دی ۔
چوہدری نثا رعلی خان نے پچھلے چند دنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات پر تشویش اظہار کیا ہے اور کہا ہے ’’حالیہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں ملکی کی سول اور فوجی قیادت کی جانب سے ایک متفقہ اور مضبوط عزم کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر کو آہنی ہاتھوں سے کچلا جائے گا۔ معصوم جانوں کو نشانہ بنانے والوں ، خواہ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر سے حملہ آور ہوں،کو ہر صورت کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا‘‘۔ وفاقی وزسیر داخلہ نے کہا ہے کہ پچھلے تین سالوں کی پالیسیوں اور آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کر دی گئی ہے لہذا انہوں نے غیر ممالک میں اپنے ہیڈکوارٹرز اور ٹریننگ سنٹر بنا لئے ہیں ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ حالیہ واقعات کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں تیزی سے بہتر ہوئی امن و امان کی صورتحال کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آ گئی ہے کہ اس مذموم کوشش میں غیر ملکی طاقتیں اور انکی انٹیلی جنس ایجینسیاں ملوث ہیں مگر اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ایسی مذموم کوششو ں اور اس میں ملوث عناصرکے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور دھماکوں میں ملوث مرکزی سہولت کار کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گذشتہ رات اس سلسلے میں اٹک، حضرو اور ٹیکسلا سے مزید سہولت کاروں کی مزید گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ اس سہولت کار کی گرفتاری بڑی کامیابی ہے پیپلز پرٹی کے لیڈروں کو چوہدری نثار علی خان کو ’’ٹارگٹ ‘‘ بنانے کی بجائے اصلاح کی طرف توجہ دے پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی تنقید پر لوگ سوال کرتے ہیں چوہدری نثار علی خان کا’’جرم‘‘ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی انہیں معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ۔