counter easy hit

دہشت گردی ، چانسلر مرکل کے خیالات اور ہمارا رویہ

جرمن چانسلر مرکل نے بڑے شرح صدر کے ساتھ کہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں۔

جرمن لیڈر نے جو کچھ کہا ہے وہ اس بیانئے سے قطعی مختلف ہے جو مغربی دارالحکومتوں سے سننے میں آ رہا ہے۔نائن الیون کے حوادث کے فوری بعد صدر بش نے کہا تھا کہ ایک نئی صلیبی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے، موجودہ پوپ کسی وقت مسلمانوں کو دہشت گردی کے لئے مطعون کرتے ہیںمگر ایک حالیہ بیان میں انہوں نے دہشت گردی کومذہب سے جوڑنے کی مخالفت کی ہے، کینیڈا میں تو نقشہ ہی مختلف ہے، صدر ٹروڈو مسجدوں میںجاتا ہے، اور مذہبی ہم آہنگی کی علامت بنا نظرا ٓتا ہے۔جرمن چانسلر بھی مختلف اوقات میں مختلف باتیں کرتی رہی ہیں، نئے سال کے پیغام میںانہوں نے کہا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف متحدہ کوششیںہو نی چاہئیں مگر گزشتہ روز انہوںنے اپنے سابقہ بیان سے رجوع کرتے ہوئے دوسری بات کر دی ہے جو خاصی حوصلہ افزا ہے اور تعصبات کے اندھیروںمیں روشنی کی ایک کرن کی طرح ہے۔
اسلامی دنیا بھی دہشت گردی کے اشو پر منتشر خیالات کی مالک ہے، زیادہ تر کا کہنا یہی ہے کہ کوئی القاعدہ ہے، یا داعش ہے ، طالبان ہیں، جماعت الاحرار ہے،لشکر طیبہ ہے،جیش محمد ہے اورا سی قبیل کی کئی تنظیمیں یا کسی ایک تنظیم کی مختلف شاخیں ہیں جنہوںنے اودھم مچا رکھا ہے۔
لاہور کی حالیہ دہشت گردی کے بعد خواب خرگوش میںمست قوم یکا یک جاگی ، اسے احساس ہوا کہ یہ تو افغان ہیں جن پر ہم نے احسانات کئے مگر وہ ہماری جان کے دشمن بن گئے، ہم نے نہ صرف پاکستان کے اندر افغانوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی بلکہ فوجی حملے کر کے سرحد پار بھی افغانوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، یہ سب لوگ یہیں پر موجود تھے، یاا فغانستان میں تھے مگر ہم نے ان کے خلاف ا س وقت تک کوئی کارروائی نہ کی جب تک انہوں نے لاہور میںپولیس والوں کو نشانہ نہیں بنایا، یہ ایک سربستہ راز ہے کہ راتوں رات یہ لوگ دہشت گرد کیسے کہلانے کے حقدار ٹھہرے اور انہیں زنجیریںکیوں پہنا دی گئیں یا پولیس مقابلوں میں انہیں کیوںبھون دیا گیا، ہما راویہ صدر ٹرمپ سے مختلف نہیں جس نے سات اسلامی ملکوں کے لوگوں کا داخلہ بند کر دیا مگر امریکہ میں عدلیہ زندہ ہے، ٹرمپ کے احکامات معطل کر دیئے گئے،اور مسلمانوں کی بد نصیبی کا سلسلہ رک گیا، ہمارے ہاں دہشت گردی کی لہر جاری ہے اور زور شور سے جاری ہے، ابھی لال شہباز قلندر درگاہ کی سی سی ٹی فلم سامنے آئی ہے اورا س کو دیکھ کر بھی ہم نے ایک افغان چہرے مہرے والے شخص کو دہشت گرد قرار دے ڈالا۔
ہو سکتا ہے ہماری تفتیشی ایجنسیاں صحیح خطوط پر کام کررہی ہوں مگر ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ مسلمان ہی دہشت گردی میںملوث ہیں اور انہی کامکو ٹھپنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نیشنل ایکشن پلان کے بیشتر نکات اذان ، خطبہ جمعہ ، دینی مدرسوں کے نصاب تعلیم سے متعلق ہیں ، گویا ہم قومی سطح پر بھی یک رخے واقع ہوئے ہیں، ہماری مسجدیں خاموش کر دی گئی ہیں، دورد شریف کی گونج سنائی نہیں دیتی، خطبہ جمعہ سننے کا شرف انہی کو حاصل ہوتا ہے جو اذان کے فوری بعد مسجد کے اندر چلے جائیں ورنہ مسجد کے باہر جو صفیں بچھائی جاتی ہیں، وہ خطبہ سننے سے محروم رہتے ہیں اور نماز کی ادائیگی بھی اگلی صف والوں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ چودہ سو سال قبل خطبہ حجتہ الوداع ایک لاکھ لوگوں کے کانوں تک کیسے پہنچا ہو گا۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسابھی ہے جو دہشت گردوں کو خوارج سے تشبیہہ دیتا ہے، گویا یہ مانتے ہیں کہ یہ ساری دہشت گردی برگشتہ مسلمانوں ہی کی کارستانی ہے۔
مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہا رہا ہے،یہ فقرہ تو ضرب المثل بن چکا ہے تو جناب ! یہ بتایئے کہ ڈرون طیارے کون اڑا رہے ہیں، کروز میزائل کون داغ رہے ہیں، کارپٹ بمبنگ کون کر رہے ہیں، گوانتا نامو بے میں عقوبت خانے کس نے کھول رکھے ہیں۔ترکی کے سوا نیٹو میں اور کس مسلمان ملک کی افواج چنگیزیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔شام میں ہلاکت کا کھیل کھیلنے والے روسی، امریکی اور نیٹو طیارے کن مسلمان ملکوں کی ملکیت ہیں۔نیٹو کے جس طیارے سے لیبیا کے لیڈر کرنل قذافی کے جسم کے پرخچے اڑائے گئے، وہ کس مسلمان ملک کی ایئر فورس سے تعلق رکھتا تھا ، یہ سری نگر، شوپیاں، بٹ گرام میں کشمیری مسلمانوں کے آنکھیں اندھی کرنے والی گولیاں کس اسلامی ملک کی فوج چلاتی ہے،اور یہ کس اسلامی ملک کا وزیر اعظم دھمکی دیتا ہے کہ وہ بلوچستان ، کشمیرا ور گلگت میں تباہی مچائے گا۔
ان بدیہی حقائق کے ہوتے ہوئے دہشت گردی کا تعلق اسلام اورمسلمانوں سے جوڑنے والے کس منطق کا سہارا لے رہے ہیں۔
سیدھی بات ہے کہ دہشت گردی کی باگ ڈور غیر اسلامی طاقتوںکے ہاتھ میں ہے، انہوںنے نان سٹیٹ ایکٹرز کی فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی ہے، ان میں سے ایک ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا، دوسرا کل بھوشن سنگھ یادیو پکڑا گیا۔ایک کرنل پروہت پکڑا گیا جس نے سمجھوتہ ایکسپریس کے پاکستانی مسافروںکوکوئلہ بنا دیا تھا۔کیا ان دہشت گردوں کے نام مسلمانوں سے ملتے ہیں، کیاا ن کی شکلیں مسلمانوں سے ملتی ہیں۔ اگر نہیں ملتیں تو ہم کیوں نہیںکہتے کہ دہشت گردی کا تعلق ہندو مت سے ہے۔کیا ہم افغانیوں کا نام صرف ا سلئے لیتے ہیں کہ ان کا کوئی خصم سائیں نہیں، ان کے پیچھے آج کوئی غوری، ابدالی، غزنوی کھڑا نظر نہیں آتا۔
خدا را! جب ایک جرمن لیڈر یہ مانتی ہیں کہ اسلام کا تعلق دہشت گردی سے نہیں تو ہم کیوں یہ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں، ہم کیوں مانتے ہیں کہ جماعت الا حرار کاتعلق اسلام سے ہے یا ٹی ٹی پی والے سچے ا ور پکے مسلمان تھے، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دشمنوںنے ہمارے لوگوں کو ورغلا رکھا ہے، وہ پیسے کا لالچ دے کر ان سے دھماکے کرواتے ہیں۔ تو کیا اس کا جواب یہ نہیںہونا چاہئے کہ ہم بھی اپنے دشمنوں کو ورغلائیں اور انہیں پیسے کا لالچ دے کر انہی کے بھائی بندوں کے خلاف استعمال کریں ، یہ تو ایک پراکسی جنگ ہے جس میں ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو ہر روز سانحہ سہون ہو گا، سانحہ داتا دربار ہو گا، سانحہ جامعہ نعیمیہ ہو گا، اور سانحہ چیئرنگ کراس ہو گا۔ اور ہم مرنے والوں کے لواحقین میں کروڑوں کی رقوم تقسیم کرتے کرتے تھک جائیں گے۔سی پیک، موٹر وے،اورنج ٹرین اور بجلی کے منصوبوں کے پیسے لواحقین کے بنک اکاﺅنٹس میں چلے جائیں گے، دہشت گردی کے مسئلے کا یہ حل صرف ہماری ذہنی اختراع ہے۔باقی دنیا دہشت گردوں سے لڑتی ہے، ان کے لئے سرحدیں بند کرتی ہے، ان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرتی ہے، انہیں ڈرون سے مارتی ہے، ان پر کروز میزائل داغتی ہے ا ور ان کی ذہنی تطہیر کے لئے گوانتا نامو بے کے عقوبت خانے ایجاد کرتی ہے۔
پورے پاکستان میں ضرب عضب، اور رینجرز کے آپریشن تین سال سے جاری ہیں، تین سال بعد پنجاب جاگا ہے ا ورا سکے وزیر اعلی نے ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلانے کی ضرورت محسوس کی ہے مگرا سکے فیصلے دہشت گردی کے خاتمے میں کس حد تک کارگر ثابت ہوں گے یا خورشید شاہ کے بقول پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کو محدود کرنے کا باعث بنیں گے، اس کافیصلہ وقت ہی کر سکے گا۔
میںنے وقت نیوز پر سلیم بخاری کا ایک پروگرام ابھی دیکھا ہے جس میں بھارت کے سابق آرمی چیف بکرم سنگھ نے کہا ہے کہ لشکر طیبہ کے مرکز مریدکے اور جیش محمد کے مرکزبہاولپور کو تباہ کرنے کے لئے ہمیں خود وہاں جانے کی ضرورت نہیں، پاکستا نی لوگ ہی پیسے لے کر یہ کام کر دیں گے۔
کیا آپ تو بھارت سے پیسے لے کر اس کا کام نہیں کر رہے ہیں، کیا میں بھارت سے پیسے لے کر اس کا کام نہیں کر رہا، آیئے اپنے اپنے گریبان میںجھانکیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website