تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
اتوار کا دن 15 مارچ کو پاکستان کرکٹ ٹیم جب آئرلینڈ کو شکست دے رہی تھی اسی وقت پاکستان کے دل لاہور میں یوحنا آباد میں عیسائیوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ جہاں 10 لاکھ کے قریب افراد رہائش پذیر ہیں۔دو مختلف چرچوں میں 2 دھماکوں میں کم از کم 16افراد جان بحق اور75 زخمی ہوگئے۔ دو افرد کو مظاہرین نے قتل کر دیا اس طرح مرنے والوں کی تعداد 18 ہو گئی ہے۔
دھماکوں کی اطلاع کے فوری بعد ہی لاہور کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ یوحنا آباد میں ہونے والے دھماکوں کو مبینہ طور پر خود کش قرار دیا جا رہا ہے ۔ عینی شاہدین کے مطابق 2 خود کش حملہ آوروں نے چرچ میں داخلے میں ناکامی پر خود کو دھماکے سے اڑایا۔عینی شاہدین کاکہنا تھا پہلا دھماکہ کیتھولک چرچ اور دوسرا کرائسٹ چرچ میں ہوا، دھماکوں کے وقت مسیحی افراد عبادت میں مصروف تھے۔ ایک 25سالہ زخمی جو متاثرہ مقام پر موجود تھا کو مشتعل افراد نے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا جو تشدد سے ہلاک ہو گیا۔ بعد ازاں مشتعل افراد نے ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کو آگ لگا دی۔ مشتعل افراد نے اس شخص کی ہلاکت کے بعد لاش متاثرہ مقام پر سڑک پر گھسیٹنا شروع کی، مشتعل ہجوم کا کہنا تھا کہ یہ شخص دھماکے کے وقت اس مقام پر موجود تھا اور حملہ آوروں کے ساتھ آیا تھا۔
ایسا صرف شک کی بناں پر کیا گیا ،مظاہرین کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ تھا اس بارے میں جلد پتہ چل جائے گا وہ دو نوںکون تھے جو مظاہرین کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔اگر وہ دہشت گرد کے ساتھی تھے یاان میں سے کوئی ایک تھا تو کسی حد تک قابل برداشت بات ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کوئی اجازت نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی عیسائی جوڑے کو مشتعل افراد نے زندہ جلا دیا تو مظاہرین کے خلاف مقدمات درج ہوئے اس کا انجام کیا ہوا ہمیں اس کا علم نہیں ہے اسی طرح اس واقعہ کے بعد بھی مظاہرین کے خلاف مقدمات درج ہونے چاہیے اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی ۔پولیس نے ان ہلاک اشخاص کی لاشوں کو تحویل میں لے لیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری تحریک طالبان جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے اس دہشت گردی میں خود کش حملہ آور کلین شیو تھا ۔اس کاروائی میں کسی کا سہاگ اجڑ گیا،کسی کا بیٹا،کسی کا بھائی،باپ،موت کی آغوش میں جا سویا ،موت تو سب کو آنی ہے ،کوئی اس سے بچ نہیں سکا اور نہ ہی بچ سکے گا لیکن کسی کو قتل کرنا اور وہ بھی بلا وجہ قتل کرنا اسلام میں اسے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔
اس لیے کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔وہ اپنے بات بزور بازو منانا چاہتا ہے ،بڑے دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کی کوئی متفق تعریف نہیں کی جا سکی جس پر سب متفق ہوں ۔دہشت گردی کا مفہوم کیا ہے ؟اس لفظ نے بھی بہت کنفیوز کیا ہوا ہے ۔سب کی اپنی اپنی تعریفیں ہیں ،آج کل یہ لفظ ہر سیاست دان ،مذہبی رہنما،اینکر ،صحافی کی زبان پر ہے ،یہ ان الفاظ میں سے ایک ہے جس پر آج کل سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے ۔اسلام میں دہشت گردی کے لیے فساد فی الارض کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یا اس کا مفہوم ادا کرتا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ لفظ دہشت گردی ،فساد فی الارض کا ایک جز ہے ۔لیکن (مغرب )میں اس کا معنی ہی بدل دیا گیا ہے اس کے معنی بدلنے کے لیے میڈیا کا بہت حصہ ہے ۔کہ دہشت گردی کا نام لیں توانگلی سیدھی اسلام کی طرف اٹھ جاتی ہے ۔میڈیا پر مغرب کا قبضہ ہے ،کافی حد تک میڈیا پر قبضہ جن کا ہے ،ان کا کہا حرف آخر سمجھا جاتا ہے ۔اور انہوں نے اسلام کے خلاف یہ لفظ استعمال کیا ہے۔
میڈیا پر اس بارے میں ایسے کام کیا گیا ہے کہ مسلمان دہشت گردوں کے نام سے جانے جائیں ۔اور چونکہ انہوں نے اس پر محنت کی ہے اس لیے کافی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہیں ۔بھارت میں اس موضوع پر فلمیں تواتر سے بنائی گئیں ہیں ۔ مغرب میں اس پر ٹی وی پروگرام،کتابیں ،اور لاکھوں آرٹیکل لکھے گئے ہیں ۔مغرب کی اس یلغار کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے کوئی توانا آواز نہیں ہے ۔اس لیے لفظ دہشت گردی اب مسلمانوں کے لیے ہی بولا جاتا ہے ۔ہندو ،عیسائی ،یہودی بے شک دہشت گر د کاروائیاں کریں ،لاکھوں افراد کو بے قصور قتل کر دیں ،اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جاتا ہے ۔ جب کہ حقیقت اس کے الٹ ہے اسلام خود دہشت گردی کے خلاف ہے بلکہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ نقصان بھی مسلمانوں کو ہوا ہے اب تک ،کیونکہ دہشت گرد بھی مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جو نام نہاد جنگ لڑی جارہی ہے وہ بھی مسلمانوں کے خلاف ہے۔
دہشت گردوں نے دہشت گردی کی تعریف بھی اپنی پسند کی بنائی ہوئی ہے ۔یہ بات توجہ سے پڑی جائے گی کہ اب تک دہشت گر دی کی کوئی واضح اور ایک جامع تعریف پر اتفاق نہیں کیا گیا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سب نے من پسند معنی بنا کر اپنے مقاصد کے لیے اپنے دشمنوں کو زک پہچانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے ۔ ،کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی ایک نظریہ ہے جو گروہ اپنے عقائد،نظریات ،رسم و رواج ،یا اپنی کوئی بات منوانے کے لیے ،مسلط کرنے کے لیے دوسروں پر زبردستی کریں ،اسلحہ استعمال کریں ،اس کے لیے بربریت سے بھی گریز نا کریں ۔اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عام افراد کا قتل ۔مجھے کہنا یہ ہے کہ دہشت گردی کی ایک جامع تعریف طے ہونی چاہیے۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال