تحریر : چوہدری ناصر گجر
ہمارے ملک کو دہشت گردی نے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا مہینہ ہو گا جس میں اس پاک سر زمین پر بسنے والے معصوم لوگوں کے خون سے یہ دھرتی نہ بھیگے۔ابھی اے پی ایس سکول کے شہید بچوں کے یادیں ہر محب وطن پاکستانی کے دل و دماغ میں تازہ ہیں اُن چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ جس طرح ناپاک دشمن نے خون کی ہولی کھیلی وہ سوچ کر ہی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیںاُن کے چہرے سامنے آتے ہی انتہائی غم کی کیفیت چھا جاتی ہے ہر وہ شخص جو ایک باپ ہے ہر وہ عورت جو ایک ماں ہے وہ اس کیفیت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جن کے ننھے پھول جنہیںوہ خود بنا سنوار کر علم کی دولت حاصل کرنے سکول بھیجیں جن کے لیے ماں کھانا بنا کر انتظار میں بیٹھی ہو کہ میرا لخت جگر آئے گا میں اپنے ہاتھوں سے اُسے کھانا کھلائوں گی لیکن جب اُس ماںکے لخت جگر کی خون میں لت پت لاش اُس کے حوالے کی جائے تو جوقیامت اُس ماں پرگزرتی ہے اُس کا اندازہ لگانے سے ہی روح کانپ جاتی ہے لیکن پھر بھی آفرین ہے اپنے دیس کی مائوں پر جن کے حوصلے ابھی بھی بُلند ہیںاُن کے بلند حوصلوں نے دشمن کے غلیظ عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
اب دشمنوں نے اُسی انداز میں باچا خان یونیورسٹی میں طالب علموں اور اساتذہ کو نشانہ بناکرماضی کے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیالیکن ان سب کے باوجود ہم پاکستانی قوم دشمن سے ڈرنے والے نہیں اور نہ ہی ہم ان دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو کبھی کامیاب ہونے دیں گے۔ “گھرکا بھیدی،لنکا ڈھائے”ایک مشہور کہاوت ہے ننانوے فیصد جرائم میں کسی نہ کسی اپنے قریبی کا ہی عمل دخل ہوتا ہے اسی طرح دہشت گردوں کو بھی پاکستانی قوم میں موجود میر جعفر،میر صادق جیسے غدار دہشت گردی کے حملے میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میںجب کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کے سہولت کاروںکاپتا لگاتے ہیں۔
اُنہیں گرفتار کرنے کے بعد دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہیں لیکن پاکستان میں اُلٹی گنگا بہتی ہے جس کی مثال سندھ حکومت نے رینجرز اختیارات کے معاملہ میں پیش کی جس کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن سہولت کاروں کو کچھ نہ کہا جائے اسی طرح پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر بھی پولیس اور رینجرز کو لے کر ایک عجیب بحث چھڑی ہوئی ہے۔ دوہری شہریت رکھنے والے ایک وقت میں دو ملکوں کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیںاس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی جماعتیں موجود ہیں جو تمام سہولیات اور فائدے تو پاکستان سے حاصل کرتے ہیں لیکن تابع دار سعودی عرب یا ایران کے نظر آتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے دلوں میں افغانستان کی محبت پاکستان سے زیادہ ہے ایسے بھی ہیں جو انڈین آرمی اور “را”کو بُلانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
بھارت کی تمام تر ہرزہ سرائیوں کے باوجود کچھ لوگ خاموشی کو ہی ترجیح دینا پسند کرتے ہیں۔ان سب باتوں کے بعد غور طلب چیز یہ ہے کہ آخر اتنی بڑی مقدارمیں بھاری ،جدید اور خود کار اسلحہ دہشت گردوں کے پاس کیسے پہنچ جاتا ہے پہلی مسئلہ یہ کہ وہ اسلحہ اگر سرحد پار سے آیا تو کیسے آیا پاکستان میں ایسے کون لوگ موجود ہیں جو اس اسلحے کو اپنے ملک میں آنے دیتے ہیں پھر یہی اسلحہ مختلف صوبوں میں کیسے پہنچ جاتا ہے۔میری تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ چیک پوسٹوں پر تعینات لوگوں میں سے ہی کچھ بے ایمان لوگ اپنے ضمیر کا سودا کر کے تباہی کے سامان کو آنے دیتے ہیں یا پھر شاید اعلیٰ افسران کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کا کوئی اپنا پیارا بھی اس تباہی کی نذر ہو سکتا ہے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کے ہی ساتھی اس وطن عزیز کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ضمیر فروشوں کی ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں ایک دھونڈنے نکلو تو ہزار ملتے ہیں جوقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہیں۔
ہمارے حکمران اپنے مفاد کے تو تمام قانون فوری پاس کر دیتے ہیں لیکن اتنی قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود بھی دہشت گردوں،سہولت کاروں اور اسلحہ کی ترسیل کی روک تھام کے لیے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا کہ جس پر سختی سے عملدرآمد بھی ہو ،بلا امتیاز کاروائی ہواور اُس کی سزا بھی انتہائی عبرت ناک ہو ۔ایک سو روپے کی خاطر اسلحے سے بھرے ٹرک کو شہر میں داخل کروانے والے کانسٹیبل کو بھی دہشت گردوں کا ساتھی شمار کیا جائے۔لائسنس شدہ اسلحے ضبط کر کے اسلحہ لائسنس پر پابندی کا قانون بنایا جائے اس کے بعد جس شخص کے پاس اسلحہ برآمد ہو اُسکی کم سے کم سزا عمر قید رکھی جائے۔
جب تک ہم اپنے گھر سے صفائی کا عمل شروع نہیں کریں گے تب تک کچھ نہیں بدلے گا اگر ہم نے اپنے اس چمن میں موجود پھولوں کی حفاظت کرنی ہے توان پھولوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا خاتمہ بہت ضروری ہے اپنے کالے دھن کو بچانے کے لیے منی لانڈرنگ کرنے والے کیا دولت پر اس ملک کو ترجیح دے سکتے ہیں؟ خیر خواہوں کے روپ میں موجود دشمن کونیست و بابود کرنا پڑے گا تعلیم کے نظام کو بہتر بنانا ہو گا انصاف کا عمل بلا امتیاز، فوری اور شفاف کرنا پڑے گاکرپٹ لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا پڑے گا غرضیکہ اس ملک کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے والوں کو نشان عبرت بنانا پڑے گا تبھی دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا اور اس ارض پاک پر ہم اورہمارے بچے محفوظ ہوں گے۔
تحریر : چوہدری ناصر گجر