تحریر : شہزاد حسین بھٹی
امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعدپاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک محتاط اندازے کے مطابق ساٹھ ہزارسے زائد بے گناہ پاکستانی اور پانچ ہزارچھ سو سے زائد فوجی جوان شہادت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستانی معشیت کو 69 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان کی طر ف سے دہشت گردوں کے گرد زمین تنگ کرنے اور قربانیاں دینے کے باوجود ہر بار امریکہ کی طرف سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
گذشتہ سال 15 جون کو پاکستانی افواج نے پاکستان کی سالمیت اور بقا کی خاطر مختلف دہشت گردوںتنظیموں کے خلاف شمالی وزیر ستان میں “ضرب عضب” کے نام سے وسیع پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا جس میں بلا تفریق دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپریشن کے فیصلے کو ملکی سطح پر پاکستانی حکومت، سیاستدانوں ،دفاعی و سویلین حلقوں، علماء ،مشائخ اور دیگرسماجی تنظیموں نے سپورٹ کیا۔ پاک فوج نے جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف کی قیادت میں وہشت گردوں کو کاری ضرب لگائی اور ان کے خفیہ ٹھکانوں ، اسلحہ ذخائراوربم بنانے کی فیکٹریوں کونشانہ بناکر تباہ کر دیاگیاتاہم چند بچے کچھے دہشت گرد عناصر اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیئے مختلف مقامات پر خود کش دھماکے کر رہے ہیں۔ان دہشت گردوںنے جنہیں بیرونی ممالک خصوصاً انڈیا اورا سرائیل کی مکمل آ شیرباد اور امدادحاصل ہے نے ملک کے اندر ہزاروںپاکستانیوں قطع نظر اسکے کے وہ سنی ہیں یا شیعہ ،اہلحدیث ہیں یا دیوبندی ،عیسائی ہیںیا دیگر مذاہب کے ما ننے والے غرض ان تمام لوگوں کو مسجدوں ،امام بارگاہوں ،سکولوں، گرجا گھروں ،بازاروں،ہوٹلوں اور جلسوں جلوسوں میں نشانہ بنایا تھا۔
16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردوںنے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا اور 145 سے زائد اساتذہ اور بچوں جن میں 132کے قریب نویں کلاس کے طالب علموں کو شہید کرڈالا ۔پاکستان آرمی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے سات دہشت گردوں کو ہلاک اور سکول میں موجود 960 افراد کی جانیں بچائیں۔اہلیان وطن کے نوجوان مستقبل شہید کر دیئے گئے لیکن کسی نے نہ تو ملکی املاک کو نقصان پہنچایا اور نہ کسی نے شک کی نبیاد پر کسی کو زندہ جلایا کیونکہ سب کو اس بات کا ادرک تھا کہ ملک حالت جنگ میں ہے اورہمار ا دشمن کسی بھی طرف سے وار کر سکتاہے لیکن 15مارچ بروز اتوار جب پوری قوم پاکستان اور آئر لینڈ کے درمیان سنسنی خیز میچ سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ اچانک دن گیا رہ بجے لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دہشت گردوں نے دو مسیحی عبادت گاہوں پر اچانک حملہ کر دیا ۔جس کے نتیجے میں سولہ افراد موقع پر جبکہ دو بعد ازاں ہسپتال میں چل بسے ۔واقعے کے فوراً بعدمسیحی صفوںمیںچھپے چندشرپسند مشتعل نوجوانوں نے موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کو زدوکوب کیا اور وردی کی توہین کرتے ہوئے سڑکوں پر گھسیٹا ۔دو بے گناہ نوجوانوں حافظ محمد نعیم اور بابر (جنکی شناخت بعد ازاں ہوئی ) کو شک کی بنیاد پر داڑھی کی وجہ سے مار مار کر ہلاک کرنے کے بعد گلے میں رسیاں ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹا اور آگ لگا کر تصاویر بناتے رہے ۔انسانیت کی تذلیل ہوتی رہی مگر کہیں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے دیکھائی نہ دیئے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جو معمولی مظالم پر فوراً متاثرہ لوگوں کے گھروں میں پہنچ جاتے ہیںوہ کہاں تھے جب ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا ؟ کہیں ریاست کی رٹ دیکھائی نہیں دیتی تھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ 1857 ء کی جنگ آذادی کا منظرآنکھوں کے سامنے ہو اورفسا دات پھو ٹ پڑنے کے بعد لوٹ مار جاری ہو۔ اسلام امن و آشتی ،بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتا ہے ہمارے مذہب میں ہے کہ ” جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جا ن بچایا ” میںخراج تحسین پیش کرتا ہوں اپنے مسلمان پاکستانی بھائیوں اور علماء کرام کے صبر کو کہ جنہوں نے اس بربریت کے باوجود اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر اپنے مسلمان بھائیوں کی بے حرمتی کو برداشت کیا ۔اس واقعہ پر کوئی بین الاقوامی میڈیا ،سول سوسائٹی اورانسانی حقوق کی تنظیمیں آواز نہیں اٹھائیں گی ۔کیونکہ انکا کام تو صرف اغیارکیایجنڈے اور مفادات کا تخفظ کرنا ہے ۔کتنی بد قسمتی کی با ت ہے کہ جس ملک میں 19کروڑ چالیس لاکھ سے زائد لوگ رہتے ہوں وہاں یوں انسانیت کی تذلیل کی جاتی رہی اور کوئی مدد کو نہ آیا۔
پاکستانی پرچم کو صوبائی دارلحکومت میں سر عام نذر آتش کیا جاتا رہااسوقت قانون کہاں تھا؟ریاست کی رٹ کہاں تھی پولیس نے کیوں حالات کو بر وقت کنڑول نہ کیا ؟دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ مسلمانوں نے قربانیاںدیںجبکہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیںلیکن انہوں نے اپنے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہونے دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر دہشتگردوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیواربن گئے۔ان واقعات پر ہمارے مذہبی ،سیاسی اور سماجی حلقوں نے پر زور مذمت کی۔
کیا فرق رہ گیا دہشتگردوں اور شرپسندعیسائیوں میں؟ وہ بھی بے گناہوں کو مار رہے ہیں اورکچھ شرپسندعیسائیوں نے بھی بے گناہوں کو زندہ جلا ڈالا؟فرض کریں کہ چرچ کی بجائے مسجد پر خو د کش حملے کے بعد دو عیسائیوں کو اسطرح پکڑ کر جلا دیا گیا ہوتا تو ہمارے میڈیا پر صف ماتم بچھی ہوتی پورا عالم اسلام دہشت گرد مانا جاتا۔
احتجاج ہر انسان کا فطری حق ہے اور آئین پاکستان بھی اسکی اجازت بھی دیتا ہے لیکن احتجاج کی آڑ میںمذموم مقاصد کی تکمیل کسی صورت قابل برداشت نہ ہے۔اب دیکھنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والوں کے خلاف کیا کاروائی کرتے ہیں ثبوت موجود ہیں تصاویر سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں قانون کو حرکت میں آنا ہوگا اور اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح اسلامی ریاست میں بے گناہوں کے خون کے ساتھ ہولی نہ کھیل سکے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ لاہور میںدو بیگناہوں کو زندہ جلا کر کرسچین، عوام کی ہمدردی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔لوگ اب دہشت گردی کو بھول کر انکی غنڈا گردی پر برہم ہیں۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی