تحریر : عاصم ڈھلوں
گورنمنٹ آف پاکستان نے دہشتگردی سے نبردآزما ہونے کے لیے 20اگست 1947کو ایک متفقہ قانون قومی اسمبلی سے پاس کرکے اسے آئین پاکستان کا حصہ بنا دیا اور اس کے لیے پورے ملک میںدہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عدالتیں اور اسکا مروجہ نظام اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ نافذ کر دیا یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں قوانین انسانون کے حقوق اور انک روایات کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے ہوتے ہیںلیکن پاکستان کے اندرجب سے یہ قانون بنا اسوقت سے ہی اس کاغلط استعمال شروع ہو گیا جس طرح ہم نے 1973کا آئین بنا کر اس ملک کے عوام اور حکمرانوں کے لیے قرآن وسنت کے بعد ایک واضح نظام متعارف کروایااور ہم نے اسے ایک مقدس کتاب کی طرح سمجھا اورآج تک ہم نے جو کچھ آئین پاکستان کے ساتھ کیا۔
شایدہم نہیں عوام نہیں سیاستدان نہیں لیکن اس ملک کاآئین ضرور شرمندہ ہو گابالکل اسی طرح دہشت گردی کا قانون ہم سے سوال کررہا ہے کہ تم نے کہ تم نے مجھے بنایا انسانوں کو حقوق اور انکا خوف ختم کرنے کے لیے لیکن آج تم نے اس ملک کے عوام کاوہ حال کردیا کہ یہ قانون بھی آج ہم سے شرمندہ ہے آج پوری قوم اور اسکے سیاستدان 2000سے لیکر2014تک803ملک گیر دہشت گردی کے واقعات جس میں کل 20026انسانوں کاقتل عام ہوا6059 سیکورٹی فورسزکے نوجو ان ہلاک ہوئے اور انکی کاروائیوں سے29977کے قریب انسانوں کاقتل عام ہوا۔
مجموعی طور پر56027انسانوں کا دہشت گردی کی وجہ سے قتل عام ہوااس وقت بھی میاں نوازشریف اور ان کے پیش رو ہی صاحب اقتدار تھے اور افسوس کہ آج بھی یہی حکمران صاحب اقتدار ہیں سب سے دردناک حقیقت یہ کہ عوام اور سیکورٹی فورسسز کا قتل عام دہشت گردی کے ذریعے کیا جاراہے اور ملک کے حکمرانوں کے بینک بیلنس پراپرٹی اور انکے خاندانوں کا میعار زندگی بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہاہے ہمارے ملک کے اندر آج تک کوئی ایسا نظام تعلیم نہیں بن سکا۔ جس میں امیر وغریب ایک ساتھ بیٹھ کر تعلیم کی پیاس بجا سکیں۔
کوئی صحت کا بہترین ادراہ نہیں بنا سکیں جس میں وقت کا حکم اور ایک مزدور ہمہ وقت اپنا علاج کروا سکیںجب اس طرح کا میعار زندگی حکمرانوںکا ہو گا تو پھر جناب وزیراعظم صاحب ملک میں دہشت گردی کے واقعات جنم لیں گے 1997والی عدالتیں اور آج کی فوجی عدالتیں بھی کچھ نہیں کر سکیں گی آپ دنیا کے ان خوش قسمت حکمرانوں میں سے ایک ہیں جن کو کئی دفعہ اقتدار ملا۔جہاںیہ انتہائی افسوس ناک واقعہ سانحہ پشاور نے ایک دفعہ پھر عوام سیاستدانون اور عکسری قیادت کو ایک میز پر اکھٹا کر دیا اور ہر کسی نے عزم کیا کہ پاکستان کے امن کے لیے حکومت کا مکمل ساتھ دیا جائے گایہ وہی عزم ہے جو 1997میں بھی اس ملک کی عوام کے اندر تھا اور اس وقت بھی یہی نعرہ تھا۔
لیں کے رہیں پاکستان بن کے رہے گا پاکستان اور آج بھی پوری قوم کا ایک ہی نعرہ ہے ہم پاکستان کو بچائیں گے دہشت گردوں کو مٹائے گے میاں نواز شریف حاحب آپ کے پاس تو موقع تھا اور ہے کہ آپ ملک کے دوسرے قائد اعظم سکتے ہیںآج کی نسل نے ان کو دیکھا نہیں صرف ان کے عمل کی پیرو کار ہے آپ نے ٹی وی پر خطاب کیا اور کہا ہے پورے ملک کے بچے اور شہید ہونے والے بچے میرے بچے ہیں اور میں یہ عزم کرتا ہوں وقت کا سپہ سالار میں ہوں اور اس ملک میں سے دہشتگردی ختم کرکے دم لوں گا قوموں کی زندگی میں کچھ فیصلے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اگر آج بھی آپ نے معمولی فیصلے ہی کیے تو قوم کو اس کے نتائج صدیوں تک بھگتنا پڑے گے اور آپ ان ناکامیو ں کے ماتھے کا جھومر ہونگے۔
اگر یہ دہشت گردی جمہوری قوتوںکی پیدا کردہ ہے اسکا حل بھی آپکو کرنا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف قوم آپ کے ساتھ ہے اگر چہ یہ پیدا ہی فوجی دور اقتدار میںہوئی ہے تو فوجی عدالتیں اسکا حل نہیں نکال سکتی جب تک ملک کی عدالتوں میں ہر وی آئی پی اور ایک غریب فرد کو ایک نظر سے نہیںدیکھا جاتا غریب امیر کا بچہ ایک تعلیمی ادارے میں اور ہر امیر غریب کا علاج ایک ہشپتال میں نہیں ہو گا تب تک گھمبیر اور نئے قوانین پچھلے قانون کی طرح ایک دوسر ے کے لیے سوال بن کر کھڑے ہونگے۔
تحریر : عاصم ڈھلوں ایڈووکیٹ
فون نمبر03424452234